تاحیات نااہلی کیس : سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کےمعاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 62ون ایف کی تحت نااہلیت کی مدت تاحیات قرار دینے کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کا از سر نو جائزہ لینے کے معاملے پر سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا ۔تاحیات نااہلی کا عدالتی فیصلہ درست قانون ہے یا نہیں عدالت جلد فیصلہ کرے گی ۔جمعہ کو جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے سمیع اللہ بلوچ کیس کا از سر نو جائزہ لینے کی استدعا کی اور موقف اختیار کیا کہ اس فیصلے کی موجود گی میں موجودہ عام انتخابات متاثر ہوں گے ، 62ون ایف کی تحت نااہلیت کی مدت پانچ سال مقرر کرنے کا پارلیمنٹ کا قانون اس وقت تک مو ئثر قانون تصور نہیں ہوگا جب تک سمیع اللہ بلوچ کیس میں وضع کردہ قانون ختم نہیں ہوتا ۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اسحاق خاکوانی کیس میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے چار سوالات وضع کیے تھے یہ عدالت ان سوالات کا جواب دے،عدالت یہ طے کرے کہ 62ون ایف کے مطابق کورٹ آف لا کیا ہے اور نااہلی کی ڈکلریشن کون دے گا۔

اٹارنی جنرل کا موٖقف تھا کہ ڈکلیریشن کی حد تک معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا جائے ۔پاکستان تحریک انصاف کے وکیل شعیب شاہین نے پیش ہوکر عدالتی فیصلے کا از سر نو جائزہ لینے کی مخالفت کی اور کہا کہ تاحیات نااہلی صرف آئینی ترمیم سے ختم کی جاسکتی ہے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریما رکس دیے کہ تاحیات نااہلی کے معاملے میں ہم بنیادی آئینی حقوق اور تاریخ کو نظرانداز کررہے ہیں، ملک تباہ کردیں کچھ نہیں ہوتا لیکن کاغذات نامزدگی میں ایک غلطی تاحیات نااہل کر دیتی ہے۔چیف جسٹس نے سوال اٹھایا صرف ایک جرنیل نے 62 ون ایف کی شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے؟کیا کسی اور ملک میں سیاستدانوں کا ایسا ٹیسٹ ہوتا ہے؟ دنیا کے کسی اور ملک میں انتخابات سے پہلے امیدوار کے لیے اتنا سخت ٹیسٹ ہے؟ ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈکلیریشن کا تعین ہوسکتا ہے کل پارلیمنٹ کردے، ہم عدالتی فیصلوں کے ذریعے آئینی خلا کو پُر نہیں کرسکتے۔

چیف جسٹس نے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے پر بھی سوالات اٹھائے اور ریما رکس دیے کہ یاتو ہم کہیں سپریم کورٹ کے ججز کا احترام کرنا ہے یا کہیں نہیں کرنا، خاکوانی کیس میں سات رکنی بنچ نے کہا نے کہا یہ معاملہ لارجر بنچ دیکھے گا، بعد میں پانچ رکنی بنچ نے سمیع اللہ بلوچ کیس میں اس پر اپنا فیصلہ کیسے دیا؟،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خاکوانی کیس میں بھاری نوٹ لکھا، انہوں نے کہا ہم اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتے ،میں اس نوٹ سے اختلاف کر نہیں پا رہا ۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے میں تاحیات کا نہیں ڈکلیریشن کا ذکر ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ اگر عدالت ڈکلیریشن کی ہی تشریح کر دے تو کیا مسئلہ حل ہوجائے گا؟۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لوگوں کو طے کرنے دیں کون سچا ہے کون ایماندار ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کیسے ممکن ہے ایک شخص پر مخصوص مقدمہ بنے اورپورا حلقہ اس کے نتائج بھگتے، عدالت کسی کوبددیانت قرار دے لیکن معاشرہ اسے ایماندار سمجھتا ہو تو عدالت کے فیصلےکا کیا ہوگا؟۔ جب وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں بھی نواز شریف کو نااہل کیا گیا تو چیف جسٹس نےکسی کا نام لینے سے منع کیا۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے واضح کیا کہ اس وقت ہم صرف تاحیات نااہلی کے آئینی اور قانونی پہلو کو دیکھ رہے ہیں،اس بارے انفرادی مقدمات کو اگلے ہفتے سنا جائے گا۔ جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل شروع کیے اور بتایا کہ سپریم کورٹ کے سامنے بنیادی معاملہ اسی عدالت کا سمیع اللہ بلوچ کیس کا ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی سمیع اللہ بلوچ کیس پرسوال اٹھایا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق نااہلی کا ڈیکلریشن سول کورٹ سے آئے گا؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ جی، ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں خود کو آئین کی شق تک محدود نہیں کرنا چاہیے، پورے آئین کو دیکھنا ہوگا، ایوب خان سے آئین پر دست اندازی کا سلسلہ شروع ہو گیا، میں پاکستان کی تاریخ کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔چیف جسٹس نے کہا ملک کو تباہ کرنے پرسزا 5 سال ہے، کاغذات نامزدگی میں معمولی غلطی پر سزا تاحیات ہے، ہم ابھی تک آئینی شق کی لینگویج پر پھنسے ہوئے ہیں،، کیا دنیا میں کہیں اراکین اسمبلی کے لیے ایسی اہلیت ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا دنیا میں کہیں ایسا معیار نہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد آئین کو دیکھ رہا ہوں، آئین کا ہر لفظ اہم ہے۔وکیل نے کہا کہ الیکشن ٹریبونل پورے الیکشن کو بھی کالعدم قرار دے سکتا ہے، الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کی سزا 2 سال ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب آئین نے خود طے کیا نااہلی اتنی ہے تو ٹھیک ہے، نیب قانون میں بھی سزا 10 سال کرائی گئی، آئین وکلا کے لیے نہیں عوام پاکستان کے لیے ہے، آئین کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی کھو دیں، پارلیمنٹ کہہ چکی ہے کہ نا اہلی 5 سال ہو گی۔ کیا سمیع اللہ بلوچ کیس میں اٹارنی جنرل کو نوٹس دیا گیا تھا؟ ریکارڈ منگوا لیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پورا پاکستان 5 سال نا اہلی مدت کے قانون سے خوش ہے، کسی نے قانون چیلنج ہی نہیں کیا۔ جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مختلف درخواست گزاروں کے وکلا نے دلائل دیے اور موقف اپنایا اگر کوئی غلطی ہو بھی تو 5 سال کی مدت مقرر کر دی گئی ہے۔ کیس میں نماز جمعہ کا وقفہ کردیا گیا اور وقفے کے بعد اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ دیا۔ چیف جسٹس نے کہا خاکوانی کیس میں جواد ایس خواجہ نے فیصلہ دیا کہ کورٹ آف لا کا تعین بعد میں کریں گے،کیا فیڈرل شریعت کورٹ بھی کورٹ آف لا ہوسکتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا سمیع اللہ بلوچ کیس میں میں تاحیات نااہلی کا اصول غلط طے کیا گیا تھا، سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے، پارلیمنٹ نے صرف مدت کا تعین کیا، آنے والی پارلیمنٹ باقی طے کرلے گی۔ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل ہوئے تو پنجاب ،خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے متعلقہ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرلز نے پیش ہوکر اٹارنی جنرل کے دلائل اپنا لیے ۔سماعت مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا اور چیف جسٹس نے آبزرویشن دی فیصلہ جلد سنا ئیں گے لیکن آج نہیں ۔