اردو اور پہاڑی کے معروف شاعرراشد عباسی کے پہاڑی نظموں کے مجموعے عشق اڈاری کی تقریب رونمائی و پذیرائی ہفتہ چھ جنوری کو پنجاب آرٹس کونسل راولپنڈی میں منعقد ہوئی۔
خوش ذوق اور صاحبان فکر و شعور حاضرین سے تقریب کے آغاز سے ہی ہال بھرا ہوا تھا اور آخر تک بھرا رہا۔ مقالہ نگاروں کا انتخاب بہت کڑا تھا۔ ناظم تقریب پروفیسر اشفاق کلیم عباسی نے نظامت اور تنظیم الاوقات دونوں میں اپنی مہارت کا ثبوت پیش کیا۔
"پہاڑی زبان اساں نی پچھان” کے بانی حماد سکندر عباسی نے ماں بولی کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ پہاڑی زبان کے بہ تدریج سفر کا ذکر کیا اور اس سفر کے سارے شرکاء کو خراج تحسین پیش کیا۔ انھوں نے سولی ٹنگی لوء کی غزلوں کے بعد "عشق اڈاری” کو پہاڑی ادب کے فروغ کے لیے ایک اور سنگ میل قرار دیا اور اس امر پر خوشی و طمانیت کا اظہار کیا کہ پہاڑی زبان میں تحریری کام کی رفتار تیز ہوئی ہے۔
مری سے تشریف لانے والے امجد بٹ معلم، ادیب، کالم نگار اور اسپرانتو دان ہیں۔ انھوں نے "دبستان مضطر کی عشق اڈاری” کے عنوان کے تحت جو مقالہ پیش کیا اس میں علامہ مضطر عباسی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس امر کی طرف اشارہ کیا کہ علامہ صاحب نے اپنے شاگردوں کو اپنی کاربن کاپی بنانے کے بجائے انھیں آزادی سے سوچنے خود اپنی راہ اختیار کرنے کا خوگر بنایا۔ انھوں نے مزید کہا کہ راشد عباسی اپنی ماں بولی کا سچا عاشق ہے۔ اس نے صلہ و ستائش کی تمنا کے بغیر نہ صرف پہاڑی زبان کی خدمت کو وطیرہ بنایا بلکہ پاکستان کی ساری قومی زبانوں کو ایک دوسرے سے قریب کرنے کے لیے اپنے کتابی سلسلے "رنتن” میں ان زبانوں کی تحریروں کو جگہ دی۔ ان کی غزلوں کا مجموعہ "سولی ٹنگی لوء” ہو یا نظموں کا مجموعہ "عشق اڈاری” شاعر کی جدت فکر، انفرادیت اور ریاضت عیاں ہے۔
پروفیسر کامران خان نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "اڈاری” صرف اڑان نہیں ہوتی بلکہ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ایک اونچے مقام پر پہنچ کر، قرب و جوار کا جائزہ لے کر، ہوا کا رخ جانچ کر اور ایک مقصد کو سامنے رکھ کر جو اڑان بھری جاتی ہے اسے اڈاری کہتے ہیں۔ پھر جب عشق کی اڈاری کا ذکر ہو تو عشق حقیقی اور عشق مجازی کے مباحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے مکمل وارفتگی، خلوص اور بے غرضی جیسے عناصر ناگزیر ہو جاتے ہیں۔ تصوف کو شاعر نے انتہائی عام فہم بنا کر پیش کر دیا ہے کہ حرص، ہوس اور لالچ سے بچ کر، میری تیری کے جھگڑوں سے دور رہ کر، غرور و تکبر سے جان چھڑا کر احسن تقویم کے درجے پر فائز ہونا ہی حقیقی تصوف ہے۔ انھوں نے شاعر کے اسلوب کی تعریف کی کہ ایسا لگتا ہے شعوری طور تمام خیالات اور تصورات کو سادہ اور عام فہم بنا کر پیش کیا گیا ہے تاکہ قارئین کے لیے ابلاغ اور تفہیم کے مسائل پیدا نہ ہوں۔
روزنامہ امت کے گروپ ایڈیٹر سجاد عباسی نے کہا کہ راشد عباسی علامہ اقبال کو اپنا روحانی مرشد مانتے ہیں اور ان کی اردو اور پہاڑی شاعری میں اس کا برملا اظہار جا بجا ملتا ہے۔ لیکن راشد عباسی علم و شعور کے دیے روشن کرنے والے سب روشن دماغ لوگوں کے قدردان ہیں اور انھوں نے "عشق اڈاری” کا انتساب اپنی جنم بھومی کے پہلے استاد منشی نبی صاحب کے نام کیا ہے۔
"عشق اڈاری ” جہاں پہاڑی زبان، ادب، روایات اور ثقافت کے ساتھ عشق کی داستان بیان کرتی ہے وہیں اس میں صوفی شعرا کا رنگ اور خوشبو بھی رچی بسی ہوئی ہے۔
اس شاعری میں قاری کو کہیں شاہ حسین کا جلال نظر آتا ہے، کہیں بلھے شاہ کا حرف انکار۔۔۔کہیں سچل سرمست کی سرمستی اور کہیں شاہ لطیف کی رمزیں ۔۔۔کہیں میاں محمد بخش کے صوفیانہ رنگ اور کہیں وارث شاہ کا عشقیہ ترنگ ۔۔۔ اور یہ سارے رنگ اور ساری روشنی راشد عباسی کے اندر سے پھوٹتی ہے”۔
ذوالفقار امین عباسی نے "عشق اڈاری” کی نظموں کی تعریف کرتے ہوئے کتاب میں موجود آصف مرزا کے مفصل مضمون کی بھی تعریف کی۔ انھوں نے پہاڑی زبان کی بقا اور فروغ کے لیے کام کرنے والے سبھی افراد اور تنظیموں کو مبارک باد پیش کی کہ ان کی محنت رنگ لے آئی ہے۔
آصف مرزا نے عشق اڈاری میں موجود اپنا مضمون حاضرین کے سامنے پیش کیا۔ اس مضمون میں راشد عباسی کی علامہ اقبال کے ساتھ عقیدت کو سراہا گیا ہے۔ مضمون نگار نے مختلف نظموں کا حوالہ دیتے ہوئے اس نکتے کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے کہ عشق اڈاری کا مرکزی نکتہ تصوف ہے لیکن یہ تصوف انسان دوستی، اخوت و محبت، رواداری، غم گساری، صبر و تحمل ، سوز و گداز اور دردمندی اور عاجزی کے ملے جلے جذبات سے صورت پذیر ہوتا ہے۔ راشد عباسی کا بھرپور ناطہ زمین اور زمین زادوں کے ساتھ ہے اور ذرا اور آگے بڑھیے تو یہ تعلق افتادگان خاک کے ساتھ ہے ۔ اور جب یہ رشتہ اپنی معراج کو چھوتا ہے تو عشق حقیقی کے اسرار و رموز اپنے آپ کھلنے لگتے ہیں۔
ڈاکٹر عابد عباسی نے کہا کہ مادری زبانوں کی بقا اور فروغ کے لیے کام کرنے والے لوگ اصلی ہیرو ہیں۔ پہاڑی زبان کے فروغ کے لیے پہاڑی زبان اساں نی پچھان اور انجمن فروغ پہاڑی زبان وقیع کام کر رہی ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اتحاد باہمی سے ایک ایسا ادارہ تشکیل دیں جو اشاعتی کام کا بیڑہ اٹھائے۔ تاحال ہمارے لکھاری کتابیں لکھتے بھی ہیں، شائع بھی کرتے ہیں اور مفت بانٹتے بھی ہیں۔ ان کا خلوص اور اپنی ماں بولی کے ساتھ عشق اپنی جگہ مگر ان کی بھی معاشی ضرورتیں ہیں اور انھوں نے بھی گھر کا نظام چلانا ہوتا ہے اس لیے اشاعتی کام کا بوجھ ان کے کاندھوں پر ڈالنا زیادتی ہے۔ ڈاکٹر عابد عباسی نے کوہسار یونیورسٹی کے قیام کو سراہتے ہوئے ایک بار پھر یہ مطالبہ دھرایا کہ یہاں شعبہ پہاڑی زبان متعارف کروایا جائے۔
تقریب کے مہمان خصوصی جسٹس (ر) محمد طارق عباسی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انھیں فخر ہے کہ ملکوٹ کے سرسید منشی نبی صاحب ان کے دادا تھے۔ انھوں نے راشد عباسی کی علمی اور ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ پرائمری کے بعد ایک عرصہ تک ان سے میل ملاقات کا سلسلہ منقطع رہا۔ لیکن جب دوبارہ ملاقات ہوئی تو مسرت و طمانیت ہوئی کہ راشد عباسی ایک پڑھا لکھا، باشعور اور درد دل رکھنے والا فرد اور صاحب اسلوب شاعر و ادیب ہے جو اپنی ماں بولی کی خدمت کے لیے دن رات ایک کر رہا ہے۔ انہوں نے عشق اڈاری کی نظموں کے متنوع موضوعات کی تعریف کی۔
تقریب کے صاحب صدارت معروف شاعر، ناول نگار اور اکادمی ادبیات میں اردو کے ایڈیٹر جناب اختر رضا سلیمی نے کہا کہ کسی بھی زبان کے لکھاری کو شعر و ادب تخلیق کرتے ہوئے اس زبان میں پہلے سے موجود روایت بہت مدد فراہم کرتی ہے۔ لیکن پہاڑی جیسی مادری زبان جس میں پہلے سے کوئی صدیوں کی روایت موجود نہیں ہے اس میں معیاری ادب تخلیق کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ انھوں مزید کہا کہ غزل کو اگرچہ مشکل صنف سمجھا جاتا ہے لیکن اس میں قافیہ، ردیف اور تلازمہ کاری سے شعر کی تخلیق کسی حد تک آسان ہو جاتی ہے۔ لیکن ایسی زبان میں نظم اور پھر آزاد نظم بہت مشکل کام ہے۔ انھوں نے شاعر کو کامیابی سے یہ سنگ میل عبور کرنے پر مبارک باد پیش کی۔ انھوں نے اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا کہ پہاڑی زبان کے فروغ کے لیے امداد باہمی سے کسی ادارے کی تشکیل مسائل کا بہتر حل ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ حکومتی سطح پر ایک تو فیصلہ سازی میں تاخیر ہوتی ہے اور پھر مالی وسائل کی دستیابی بھی ایک مستقل مسئلہ رہتی ہے۔
آخر میں پنجاب آرٹس کونسل راولپنڈی کے ڈپٹی ڈائرکٹر محمد شکور نے راشد عباسی کو آرٹس کونسل کی طرف سے شیلڈ پیش کی اور انھیں عشق اڈاری کی کامیاب اشاعت پر مبارک باد پیش کی ۔ محمد شکور نے پنجاب آرٹس کونسل راولپنڈی کی جانب سے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔