افغانستان(اُمت نیوز)جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں پاکستانی وفد سے ملاقات کےبعد افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا ہے کہ اقتصادی اور سلامتی کے مسائل سمیت فریقین باہمی دلچسپی کے امور پر بات کریں گے۔
امیر خان متقی نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ پاکستانی وفد افغانستان سے اسلام آباد کو مثبت پیغام پہنچائے گا اور دونوں ممالک کے درمیان موجودہ مسائل کو حل کرے گا۔
مولانا فضل الرحمان اتوار کو افغان حکومت کی دعوت پرکابل پہنچے تھے، جہاں انہوں نے نائب وزیراعظم افغانستان مولوی عبدالکبیر سے ملاقات کی۔
مولانا فضل الرحمان نے بتایا کہ وہ قندھار بھی جائیں گے جہاں ان کی افغان طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ سے ملاقات ہوگی۔
خیال رہے کہ طالبان سربراہ غیرملکی رہنماؤں سے بہت کم ملتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کے دورے سے چند روز قبل ہی افغانستان کے ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
وفد کی قیادت سینئر طالبان رہنما اور گورنر قندھار ملا شیرین اخوند نے کی اور افغان وزارت دفاع، اطلاعات اور انٹیلی جنس حکام شامل تھے، وفد نے پاکستانی حکام سے دو طرفہ مذاکرات کیے تھے۔
افغان خبر رساں ادارے ”طلوع نیوز“ کے مطابق قائم مقام افغان وزیر خارجہ نے افغانستان آمد پر مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد کہا کہ ’مولانا ایک سیاسی اور سائنسی شخصیت ہیں، وہ ایک عظیم سیاست دان ہیں اور یقیناً اپنے ملک کی سیاست میں ایک کردار ادا کرتے ہیں، وہ ضوابط میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور اس ملک کی سیاست میں ایک نمایاں شخصیت ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس کے اثرات اچھے ہوں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جہاں تک ہمیں معلوم ہے وفد کے ساتھ دوسری طرف سے کوئی پیغام موجود ہو سکتا ہے اور وہ اسے یہاں کے قائدین سے شیئر کریں گے اور اس طرف سے جو کچھ وہ سنیں گے اور دیکھیں وہاں شیئر کریں گے‘۔
واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمان پچھلی مرتبہ دس برس قبل 2013 میں کابل گئے تھے جب وہاں حامد کرزئی کی حکومت تھی۔
ہفتہ کو اسلام آباد میں صحافیوں کے ایک گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ انہیں دورے کی دعوت طالبان سربراہ کی منظوری سے دی گئی ہے اور وہ ان سے ملیں گے۔
جب پوچھا گیا کہ کیا وہ ٹی ٹی پی کا معاملہ افغان حکام کے ساتھ اٹھائیں گے تو انہوں نے کہا کہ ہاں، اس کا امکان ہے، ہم اپنا تعلق خیر سگالی کے لیے استعمال کریں گے۔
مولانا فضل الرحمان نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ دورہ افغانستان کا انتظام ان کی پارٹی نے کیا ہے لیکن انہوں نے دفتر خارجہ اور متعلقہ حکومتی عہدیداروں کو سے رابطے کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے دورے قبل پاکستان کے مؤقف اور مطالبات سے آگاہ کیا گیا تو اندازہ ہوا کہ حکام اس دورے کو اہمیت دے رہے ہیں اور وہ حکومت سے رابطے میں ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام کی جانب سے جو اشارے انہیں ملے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا دورہ نتیجہ خیز ہوگا جب کہ افغان حکام بھی اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔