اسلام آباد: سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت فروری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی گئی ۔
سماعت کے بعد احمد رضا قصوری نے کہا کہ اگر یہ 40 سال پرانا کیس کھل جاتا ہے تو پرانے کیسزکی سونامی آجائے گی، بھٹو شہید ہے تو پھر میرے والد کیا ہیں؟ پھر قانون بنادیں کہ جس کو بھی سزائے موت ہو اسے شہید قرار دیا جائے گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں نو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ، جس میں جسٹس سردار طارق، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، آصفہ بھٹو اور فاطمہ بھٹو بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے جبکہ کیس کی کارروائی براہ راست نشر کی گئی ۔
سماعت شروع ہوئی تو سینیٹر رضا ربانی روسٹرم پر آگئے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالتی معاون ہیں؟
رضا ربانی نے جواباً کہا کہ میں عدالتی معاون نہیں لیکن بختاور اور آصفہ کا وکیل ہوں، ہم نے کیس میں فریق بننے کی درخواست جمع کرائی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہوگیا، اس درخواست کو دیکھتے ہیں۔اس کے بعد عدالتی معاون بیرسٹر صلاح الدین احمد روسٹرم پر آگئے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ میری اہلیہ نواب احمد قصوری کی نواسی ہیں، عدالت فریقین سے پوچھ لے کہ میری معاونت پر کوئی اعتراض تو نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اہلیہ نے اعتراض اٹھایا ہے تو پھر بڑا سنجیدہ معاملہ ہے۔وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے ورثاء کو بیرسٹر صلاح الدین پر اعتراض نہیں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میرے والد ڈی جی ایف ایس ایف مسعود محمود کے بھٹو کیس میں وکیل تھے، اگر میرے اوپر بھی کسی کو اعتراض ہو تو بتا دیں۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پر کسی فریق کو اعتراض نہیں آپ فئیر ہیں اس کا یقین سب کو ہے۔
عدالتی معاون مخدوم علی خان نے عدالت کو کہا کہ ہم نے کچھ متعلقہ مواد جمع کرایا ہے۔
اس کے بعد احمد رضا قصوری روسٹرم پر آٸے تو چیف جسٹس نے انہیں بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں۔ پہلے عدالتی معاون کو بات مکمل کرنے دیں، آپ کو ان کی کسی بات پراعتراض ہے تو لکھ لیں۔
عدالتی معاون احمد رضا قصوری نے کہا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب میں سارا واقعہ لکھا ہے۔چیف جسٹس نے احمد رضا قصوری سے مکالمے میں کہا کہ آپ متعلقہ حصہ ڈھونڈ لیں، عدالتی وقت ضائع نہ کریں۔
احمد رضا قصوری نے کہا کہ کتاب میں جو لکھا گیا، اگر ان پر دباؤ تھا تو استعفی دے دیتے۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں نہ سمجھائیں جو پڑھنا ہے پڑھ لیں۔
احمد رضا قصوری نے کہا کہ اگر کسی جج پر کوٸی دباؤ تھا تو اسے بنچ سے الگ ہوجانا چاہیے تھا، کیا کسی کے دباؤ میں آکر کوٸی کسی ملزم کو موت کی سزا دے سکتا ہے؟
اس کے بعد عدالتی معاون مخدوم علی خان نے بتایا کہ اس صدارتی ریفرنس میں چار سوالات پوچھے گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سب سے پہلے آپ آئین کا آرٹیکل 186 پڑھیں جس کے تحت یہ ریفرنس بھیجا گیا، کیا ہمارے پاس صدارتی ریفرنس کو نہ سننے کا آپشن ہے؟
جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ آئینی طور پر تو عدالت کے پاس ریفرنس پر رائے دینے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، مگر صدارتی ریفرنس میں پوچھا گیا سوال مبہم ہو تو عدالت کے پاس دوسرا آپشن موجود ہوگا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ اگر عدالت کی رائے ہو کہ سوال مبہم ہے تو بھی عدالت کے پاس آپشن رائے دینا ہی ہوگا۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کے سامنے یہ ایک منفرد کیس ہے، چیف جسٹس نے اسی کیس میں ایک انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ بھی طلب کر رکھا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیادی طور پر اس ریفرینس کی بنیاد سابق جج نسیم حسن شاہ کا انٹرویو ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ مجھے بھیجا گیا جو وقت کی کمی کے باعث میں نہیں پڑھ سکا۔
اس کے بعد مخدوم علی خان نے سید شریف الدین پیرزادہ کا خط پڑھ کر سنایا اور کہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کی بہن نے صدر مملکت کو رحم کی اپیل کی تھی، ذوالفقار علی بھٹو نے بذات خود کوئی رحم کی اپیل دائر نہیں کی تھی
عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا کہ ذولفقار علی بھٹو کو چار تین کے تناسب سے پھانسی کی سزا دی گئی، بعد میں ایک جج نے انٹرویو میں کہا کہ میں نے دباؤ میں فیصلہ دیا، عدالت کے سامنے سوال بھٹو کی پھانسی پر عمل کا نہیں ہے، بدقمستی سے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ریورس نہیں ہو سکتی، عدالت کے سامنے معاملہ اس کلنک کا ہے۔
جس پر بینچ میں شامل جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر اس کیس میں عدالت نے کچھ کیا تو کیا ہر کیس میں کرنا ہو گا؟
اس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اس ریفرنس کی بنیاد جسٹس نسیم حسن شاہ کا انٹرویو تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دئے کہ ہمیں ٹی وی چینل کے ڈائریکٹر نیوز نے انٹرویو کی کاپی بھیجی ہے، انٹرویو شاید ہارڈ ڈسک میں ہے، سربمہر ہے ابھی کھولا نہیں۔
چیف جسٹس کی اسٹاف کو انٹرویو کی کاپی ڈی سیل کرنے کی ہدایت کردی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ہمارے سامنے قانونی سوال کیا ہے؟ کیا ایک انٹرویو کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے کر رائے دے دیں؟ کیا عدالت ایک انٹرویو کی بنیاد پر انکوائری کرے؟ انٹرویو ایک جج کا تھا جبکہ بنچ میں دیگر ججز بھی تھے، کیا ہم انٹرویو سے متعلقہ لوگوں کو بلا کر انکوائری شروع کریں؟
انہوں نے مزید کہا کہ ہم صرف ایک انٹرویو کی ویڈیو دیکھ کر تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہوا تھا، آرٹیکل 186 کے تحت عدالت صرف قانونی سوالات پر رائے دے سکتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ بھی بتا دیں بھٹو ریفرنس میں آخر قانونی سوال پوچھا کیا گیا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کا پورا انٹرویو نہیں سن سکتے متعلقہ پارٹ لگا دیں۔ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں نے جو سی ڈی جمع کرائی اس میں صرف وہی حصہ ہے جو ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق ہے۔
اس کے بعد عدالت نے فاروق ایچ نائیک کی جانب سے جمع کرائی گئی سی ڈی لگانے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اس وقت ایک شخص کی عزت اور تاریخ کی درستگی دیکھ رہی ہے، عدالت بہتر مثال قائم کرنا چاہتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ واحد نکتہ یہی ہے اس وقت عدلیہ آزاد نہیں تھی، ہم کیسے اس مشق میں پڑیں کہ بنچ آزاد نہیں تھا؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ایک جج کے انٹرویو سے پوری عدالت کے بارے یہ تاثر نہیں دیا جاسکتا کہ تب عدلیہ آزاد نہیں تھی، دوسرے ججز بھی تھے جنہوں نے اپنے نوٹس لکھے اور اختلاف کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں ایک جج کی رائے کو نظرانداز نہیں کرسکتے، ذوالفقار علی بھٹو کیس میں بنچ کا تناسب ایسا تھا کہ ایک جج کی رائے بھی اہم ہے، ایک جج کے اکثریتی ووٹ کے تناسب سے ایک شخص کو پھانسی دی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جج صاحب کا یہ انٹرویو کب لیا گیا؟ نوٹ کرلیں 3 دسمبر 2003 کو یہ انٹرویو چلایا گیا۔
ویڈیو دیکھنے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ فاروق ناٸیک صاحب آپ نے جو ویڈیو فراہم کی وہ غیر متعلقہ ہے، پریشر والی بات کا آپ کی ویڈیو میں کہیں ذکر نہیں۔جس پر فارق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ انٹرویو یوٹیوب سے ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے۔
عدالت نے جیو ٹی وی کی فراہم کردہ ویڈیو کی کاپی فاروق ایچ ناٸیک کو دینے کی ہدایت کردی۔معاون مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ فیصلہ انصاف سے زیادتی ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس میں سپریم کورٹ قصور وار ہے؟ یا پھر پراسیکیوشن اور اس وقت کا مارشل لا ایڈمنسٹریٹر؟
دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میری نظر میں ہمیں اپنی تاریخ کو درست کرنا چاہیے، اسٹگما (کلنک) ایک خاندان پر نہیں لگا بلکہ اداروں پر بھی لگ چکا ہے۔جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ آپ نے بالکل درست بات کی ہے۔
چیف جسٹس نے معاون مخدوم علی خان کو کہا کہ آپ تحریری معروضات بھی جمع کرا دیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کیس کو انتخابات کے بعد نہ رکھ لیں؟ کیا ہم اگلی سماعت عام انتخابات کے بعد کریں؟
جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن سے قبل سماعت دوبارہ ہو، جتنی جلد ہو سکے عدالت دوبارہ سماعت کرے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ناٸیک صاحب پہلے ہی دو الیکشنز گزر چکے ہیں۔عدالت نے سماعت فروری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی ۔