سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل درآمد نہ ہو تو توہینِ عدالت کا نوٹس ہوتا ہے، فائل فوٹو
سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل درآمد نہ ہو تو توہینِ عدالت کا نوٹس ہوتا ہے، فائل فوٹو

پیر تک سماعت ملتوی کرنے کیلیے پشاور ہائیکورٹ کا حکم معطل کرنا پڑے گا،چیف جسٹس

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پشاور ہائیکورٹ کے انتخابی نشان بلے سے متعلق فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر وکیل حامد خان کی  سماعت پیر ملتوی کرنے کی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ پیر تک سماعت ملتوی کرنے کیلیے ہائیکورٹ کا حکم معطل کرنا پڑے گا،ہم تو ہفتے اوراتوارکو بھی سماعت کیلیے تیار ہیں،وکیل حامد خان نے کہاکہ اس صورت میں تیاری کیلیے کل تک کا وقت دیں۔

سپریم کورٹ میں پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بنچ نے سماعت کی،تحریک انصاف کے وکیل حامد خان جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے وکیل مخدوم علی خان عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ ابھی تو مختصر فیصلہ آیا ہے تفصیلی فیصلہ کب تک آنے کا امکان ہے؟وکیل الیکشن کمیشن مخدوم علی خان نے کہاکہ تفصیلی فیصلہ ایک ہفتے تک آ جائے گا۔

وکیل حامد خان نے کہاکہ ہمیں کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کیس کی فائل میں نے بھی نہیں پڑھی ،چیف جسٹس نے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ مقدمہ کیلیے کب تیار ہونگے؟وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ کیس کی سماعت پیر کو رکھ لیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ کل امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ ہونے ہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ پیر تک سماعت ملتوی کرنے کیلیے ہائیکورٹ کا حکم معطل کرنا پڑے گا،ہم تو ہفتے اور اتوار کو بھی سماعت کیلیے تیار ہیں،وکیل حامد خان نے کہاکہ اس صورت میں تیار کیلیے کل تک کا وقت دیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہفتے اور اتوار کی چھٹی قربان کرکے انتخابات کے کیسز سن سکتے ہیں،صرف یہ چاہتے ہیں کہ انتخابات وقت پر اور قانون کے مطابق ہوں،معلوم ہے کہ اب انتخابات میں وقت کم ہے۔

پی ٹی آئی انتخابات قانون کے مطابق نہیں تھے، وکیل الیکشن کمیشن

الیکشن کمیشن کےوکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ پی ٹی آئی انتخابات قانون کے مطابق نہیں تھے،انتخابات خفیہ اور پیش کی گئی دستاویزات حقائق کے مطابق نہیں تھیں۔

وقفے کے بعد سپریم کورٹ میں پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر دوبارہ سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے سماعت کی،جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ میں شامل ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ الیکشن کمیشن نے انٹراپارٹی انتخابات کیس میں 64صفحات پر مشتمل فیصلہ دیا،الیکشن کمیشن کےپولیٹیل فنانس ونگ نے بھی انٹراپارٹی انتخابات پر سوالات اٹھائے تھے،الیکشن کمیشن کے مطابق پی ٹی آئی انتخابات قانون کے مطابق نہیں تھے،انتخابات خفیہ اور پیش کی گئی دستاویزات حقائق کے مطابق نہیں تھیں۔

سیکریٹری جنرل اسد عمر تھے، کیا وہ پارٹی چھوڑ گئے؟چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ پہلے پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر تھے، کیا وہ پارٹی چھوڑ گئے؟اسد عمر صاحب کا کوئی استعفیٰ ہے؟ کیا ان کو پی ٹی آئی سے نکالا گیا ہے؟

دوران سماعت وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ اسدعمر سے متعلق الیکشن کمیشن کے پاس معلومات نہیں،عمر ایوب نے پی ٹی آئی کے انتخابات سے متعلق نوٹیفکیشن پر دستخط کیے،اب عمر ایوب سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی ہیں،عمر ایوب کیسے  سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی بنے یہ نہیں معلوم۔