بہاریوں کے بغیرپاکستان کیسے مکمل ہوسکتا ہے،محمود شام

کراچی:وائس فار ہیومینیٹی انٹرنیشنل اورسرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے باہمی اشتراک اوردعا فاؤنڈیشن کے تعاون سے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں محصور پاکستانیوں کے مسئلہ کو اجاگر کرنے کے لئے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے سرسید یونیورسٹی کے چانسلر جاوید انوار نے کہا کہ یہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے جو انسانی بنیادوں پر حل کئے جانے کا متقاضی ہے۔کیمپوں میں محصور مکینوں کی ناگفتہ بہ حالت کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیمیں آواز اٹھاتی رہی ہیں۔۔اور حکومتِ پاکستان کو بھی اس اہم انسانی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ترجیحی بنیاد پرکوئی ٹھوس قدم اٹھانا چاہیئے۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز ادیب و دانشور اور معروف صحافی محمود شام نے کہا کہ بہاریوں کے بغیر پاکستان کیسے مکمل ہوسکتا ہے۔وہ تومشرقی پاکستان میں، نظریہ پاکستان کے تحت آئے تھے جو تشکیلِ پاکستان کی بنیاد ہے۔کبھی کسی نے سوچا کہ آج ریاست کے ستون کیوں لرز رہے ہیں۔۔ملک میں اتنا خلفشار کیوں ہے۔۔کس کی آہیں لگ رہی ہیں۔۔آج اس دوراہے پر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم سے کہاں کہاں اجتماعی خطائیں سرزد ہوئی ہیں۔۔جب پاکستان کے نوجوان اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور ہنر کا لوہا امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا جیسے ممالک میں منوا سکتے ہیں تو کیا وہ لڑکھڑاتے کراچی اور بے لگام راجدھانی کو نہیں سنبھال سکتے۔۔ہمیں اپنے دل سے اپنوں کوخوف نکالنا ہوگا۔یہ ٹیکنالوجی اور نیٹ ورکنگ کا دور ہے یعنی رابطے اور تعلقات بنانے کا دور ہے بگاڑنے کا نہیں۔
اس موقع پر جامعہ کراچی کے سابق رئیسِ کلیہ برائے سوشل اور میریٹورئیس پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ تاریخ کا اپنا ایک نظام ہے۔تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے۔ ناانصافی اور اقتدار کی خواہش، لاکھوں انسانی جانوں کی ہلاکت کا سبب بنی۔۔1971کی جنگ میں سیز فائر بھی ہوسکتا تھا لیکن ایک سازش کے تحت پاکستانی فوج سے ہتھیار ڈلوائے گئے۔تین لاکھ محب وطن پاکستانی بنگلہ دیش کےکیمپوں میں اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہم انھیں پاکستان بلانے میں لیت و لعل سے کام لیتے رہے ہیں اور لے رہے ہیں۔شاید یہ ان کی بددعاؤں کا اثر ہے کہ پاکستان ابتری،۔ انتشار اور اقتصادی بدحالی کا شکار ہے اور 1971کے بعد سے اب تک یہ کھڑا نہیں ہوسکا ہے۔
امریکہ میں مقیم وائس فار ہیومینیٹی انٹرنیشنل کے چیئرمین احتشام ارشد نظامی، نے کہا کہ تاریخ سے نظریں چرانا باعثِ ندامت ہے۔اس سیمینار کا مقصداصل حقائق کو منظر عام پر لانا ہے تاکہ آنے والی نسلوں تک درست معلومات پہنچیں اور انھیں پتہ چلے کہ اصل حقائق کیا تھے۔1971 میں علیحدگی پسند بنگالیوں نے غیربنگالیوں کا وسیع پیمانے پ قتلِ عام کیا۔مسجد میں پناہ لینے والے غیر بنگالیوں تک کو بیدردی سے قتل کردیا گیا جن کی لاشیں مسجد میں بکھری پڑی تھیں۔یکم /مارچ سے24 مارچ 1971تک مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن کا راج تھا اورغیربنگالیوں کے قتلِ عام کا بازار گرم تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اب بھی تقریباََ تین لاکھ لوگ بنگلہ دیش کے کیمپوں میں محصور ہیں جو بہاری نہیں بلکہ پاکستانی ہیں اور ان کی تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے۔اگر آپ ان کے کیمپوں میں جائیں تو ایک ایک بچہ آپ کو چلتا پھرتا پاکستان نظر آئے گا۔۔لوگ دانستہ یا نادانستہ اس مسئلے کو بھول چکے ہیں یا بھول جانا چاہتے ہیں۔لیکن ہمار ی کوشش ہے کہ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوجاتا اسے زندہ رکھیں۔پاکستان کی زمہ داری ہے کہ کیمپوں میں پڑے پاکستانیوں کا مسئلہ حل کرے اور ان محبِ وطن پاکستانیوں کو اس اذیت ناک زندگی سے نجات دلائے۔