اسلام آباد(اُمت نیوز)پاکستان کی سب سے بڑی ای کامرس کمپنی کے سی ای او مستعفی ہوگئے ہیں۔ ادارے میں بڑے پیمانے پر چھانٹیوں کی تیار کرلی گئی ہے۔ ”دراز“ میں کم و بیش 25 فیصد چھانٹیاں کی جاسکتی ہیں۔ ان میں سینیر مینیجمنٹ کی شخصیات بھی شامل ہیں۔
دراز کے سی ای او Bjarke Mikkelsen کے مستعفی ہونے کے بعد ادارہ لاگت میں کمی کے لیے کوشاں رہے گا۔ اس کے لیے چھانٹی کا راستہ اختیار کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
جارک مکلسن نے جمعرات کی صبح اعلان کیا کہ وہ کمپنی چھوڑ رہے ہیں۔ انہوں نے آٹھ سال تک دراز کے لیے خدمات انجام دیں۔
عبوری مدت کے لیے چین کے بڑے ای بابا گروپ کی چھتری تلے کام کرنے والے لزاڈا گروپ کے سی ای او جیمز ڈونگ نے عبوری مدت کے لیے دراز کے سی ای او کا منصب بھی سنبھال لیا ہے۔
جارک مکلسن نے رخصت ہوتے وقت ملازمین سے مخاطب ہوتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ ادارے کو مضبوط بنانا میرا مشن تھا۔ میں اپنا کام مکمل کرکے نئی نسل کو ادارہ چلانے کی ذمہ داری سونپ رہا ہوں۔
مکلسن کا کہنا ہے کہ وہ ذاتی وجوہ کی بنیاد پر یہ منصوب چھوڑ رہے ہیں اور امید ہے کہ ان کا یہ فیصلہ ادارے کی انتظامیہ کو زیادہ بارآور فیصلوں کی طرف جانے میں معاون ثابت ہوگا۔
مکلسن کا کہنا تھا کہ میں اب اپنے اہل خانہ کو زیادہ وقت دینا چاہتا ہوں اور اپنی اہلیہ کو ان کے کاروبار میں مدد دینا بھی میری بڑی خواہش اور ذمہ داری ہے۔
جارک مکلسن کے بیان میں کہا گیا کہ نئے عبوری سی ای او جیمز ڈونگ میرے دوست ہیں اور ان کی قیادت میں دراز کا تعلق اسی گروپ کے دیگر اداروں لزاڈا، ٹرینڈیول، علی ایکسپریس اور علی بابا سے بہت اچھا رہے گا۔
کمپنی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جارک مکلسن کی حیثیت علامتی تھی اور وہ علی بابا کی بڑی شخصیات کے فیصلوں کی تعمیل تک محدود تھے
دراز کا نیٹ ورک پاکستان، بنگلہ دیش، میانمار، نیپال اور سری لنکا پر محیط ہے۔ ان تمام ممالک کی مجموعی آبادی 45 کروڑ ہے۔
دوسری طرف یہ قیاس آرائی بھی گردش کر رہی ہے کہ ترکیہ کی ای کامرس کمپنی ٹرینڈیول نے دراز کو خریدنے کی بات کی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ دراز کو اس وقت ٹرینڈیول ہی چلارہی ہے جو چین کے علی بابا گروپ ہی کی ایک کمپنی ہے اور اس کی ملکیت 86 فیصد تک ہے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جارک مکلسن کا رخصت ہونا بھی دراز کو ٹرینڈیول کے حوالے کرنے کے عمل کا حصہ ہوسکتا ہے۔
چھانٹی کے بارے میں پوچھے جانے پرمکمل تردید سے گریز کرتے ہوئے دراز کی انتظامیہ کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ فوری طور پر ایسا کچھ نہیں کیاج ارہا۔
ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں دراز سے 250 سے 400 ملازمین فارغ کیے جاسکتے ہیں۔ بعض ذرائع یہ تعداد 800 تک بتارہے ہیں۔
گزشتہ برس انہی دنوں میں جارک نکلسن نے کہا تھا کہ ادارہ 11 فیصد تک ورک فورس کو فارغ کرنا چاہتا ہے۔ معیشتوں کی بحالی کی راہ میں حائل دشواریوں اور بڑھتے ہوئے انتظامی اخراجات کے باعث علی بابا گروپ کے منافع میں کمی واقع ہو رہی۔
ماہِ رواں کے اوائل میں لزاڈا میں بھی چھانٹی ہوئی تھی۔ اس کا مقصد ڈاؤن سائرنگ کے ذریعے ادارے کی افرادی قوت کو 30 فیصد کی سطح تک لانا تھا۔
پاکستان میں دراز کو 2019 تک فروغ ملتا رہا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ نقصان بھی بڑھا ہے۔ اب کمپنی کے پاس اپنی مارکیٹ ویلیو اور مالیاتی استحکام برقرار رکھنے کے لیے چھانٹی کے سوا چارہ نہیں۔ انتظامیہ میں اعلیٰ سطح کے بڑی تنخواہوں والے افراد بھی فارغ کیے جاسکتے ہیں۔