امریکا (اُمت نیوز)امریکا نے اپنے تین فوجیوں کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے عراق میں 3 اور شام میں 4 مقامات کے 85 اہداف پر حملے کیے ہیں۔ امریکی صدر جوزف بائیڈن کا کہنا ہے کہ اگر کسی نے امریکا کو نقصان پہنچایا تو بھرپور اور منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
جو کچھ امریکی فوج نے عراق اور شام میں کیا ہے وہ کئی مراحل پر مشتمل امریکی جوابی حملوں کا نقطہ آغاز ہے۔
جن مقامات پر حملے کیے گئے ہیں ان کا تعلق مختلف عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ ساتھ ایران کے پاس دارانِ انقلاب اور قدس فورس سے بھی ہے۔
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ہم جو کچھ بھی کررہے ہیں وہ تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا انتقام لینے کے لیے ہے۔ حملے جاری رہیں گے اور اہداف بھی ہماری پسند کے ہوں گے۔
امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ نے بتایا کہ عراق اور شام میں کم و بیش 125 بم گرائے گئے ہیں۔ سینٹرل کمانڈ کے مطابق امریکی فوج نے 85 اہداف پر حملے کیے جن میں امریکا سے اڑان بھرنے والے لڑاکا طیاروں نے بھی حصہ لیا۔
امریکی حملوں نے میں اسلحے اور گولا بارود کے ذخائر کے علاوہ لاجسٹکس اور ٹیلی کمیونی کیشن کی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ سینٹرل کمانڈ کے بیان کے مطابق یہ واضح نہیں کہ کتنے اہداف حاصل کرلیے گئے اور کتنے افراد مارے گئے۔
شام میں انسانی حقوق کے ایک نگراں گروپ نے بتایا کہ مشرقی شام میں امریکی حملے سے ایران نواز عسکریت پسند گروپ کے 13 ارکان مارے گئے۔
شام کے مشرقی صوبے دیئر الزور میں امریکی لڑاکا طیاروں نے ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپ کے 17 ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ یہ ٹھکانے عراقی سرحد سے متصل علاقے میں تھے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے امریکی فوجی حکام کے حوالے سے بتایا کہ ایران کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا کیونکہ ایسا کرنے سے خطے کی صورتِ حال انتہائی خطرناک ہوسکتی ہے۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کہتے ہیں کہ مزید حملوں کی بھی منصوبہ بندی کی جاچکی ہے اور یہ کہ یہ ہمارے جواب کی ابتدا ہے۔
اردن میں امریکی فوجی اڈے ٹاور 22 پر ڈرون حملے میں تین فوجیوں کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے امریکا نے جمعرات کو عراق میں اسلامی مزاحمتی گروپ کو نشانہ بنایا تھا۔
امریکی صدر اور وزیر دفاع نے دو دن قبل کہا تھا کہ امریکی جوابی کارروائی کئی مراحل پر مشتمل ہوگی اور دشمنوں کے ٹھکانوں پر بھرپور حملے کیے جائیں گے۔