عمران خان :
نجی بینکوں کے کرپٹ افسران کی ملی بھگت سے گھر، گاڑی، تعلیم اور دیگر چیزوں کیلئے 10 لاکھ سے 30 لاکھ روپے تک پُرکشش قرضوں کا جھانسا دے کر فراڈیے جعلی لون کمپنیاں بنا کر سرگرم ہوگئے ہیں۔ کمپنیوں کے فراڈیے مالکان اتنے دیدہ دلیر ہیں کہ سوشل میڈیا کے علاوہ بڑے اخبارات میں اشتہار دے کر بھی شہریوں کو جال میں پھنسا رہے ہیں۔ تاکہ سنجیدہ طبقہ بھی ان کی کمپنیوں کو معیاری سمجھ کر رابطہ کریں۔ یہ جعلساز شہریوں کے کوائف استعمال کرکے ان کے بینک اکائونٹس کو غیر قانونی ترسیلات زر، منی لانڈرنگ سمیت دیگر مالیاتی فراڈز کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں۔
’’امت‘‘ کو دتیاب معلومات کے مطابق کراچی میں جعلی مالیاتی کمپنیوں نے شہریوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈانے کیلئے نئے طریقے استعمال کرنا شروع کردئے ہیں۔ یہ کمپنیاں بینک ڈیفالٹرز کو بھی بینکوں سے قرضے دلوانے کا جھانسا دیتی ہیں۔ کئی کمپنیاں شہریوں کو 50 ہزار روپے کے عوض جعلی بینک اسٹیٹ منٹ تیار کراکر دے رہی ہیں۔
ان جعلی مالیاتی کمپنیوں نے بینکوں یا انشورنس کمپنیوں میں کام کر تجربہ رکھنے والے تربیت یافتہ عملہ تعینات کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بیروزگار نوجوانوں کا استحصال بھی کیا جا رہا ہے۔ جنہیں فون آپریٹر، انٹری کلرک، کائونٹر سمیت دیگر قسم کے آفس ورک کے نام پر 25 سے 35 ہزار ماہانہ تنخواہ کا جھانسا دیکر ملازمت پر رکھا جاتا ہے اور پھر دو سے تین ماہ بغیر تنخواہ کے کام کرانے کے بعد جعلساز مالکان غائب ہوجاتے ہیں۔
کئی کیسز میں یہ بھی دیکھا گیا کہ ان بیگار کرنے والے نوجوانوں کو بعد میں نہ صرف متاثرین پکڑ لیتے ہیں۔ بلکہ انکوائریوں بھی انہیں ہی بھگتنی پڑتی ہیں۔ شہریوں کی جانب سے ایف آئی اے کو ایسی متعدد درخواستیں موصول ہوئی ہیں جو ایسی جعلی کمپنیوں کے متاثرین ہیں۔ انہوں نے گھر، گاڑی یا دیگر مسائل کے حل کیلئے ان کمپنیوں سے قرضہ لینے کے چکر میں اپنے پاس موجود رقم سے بھی ہاتھ دھو لئے۔ جو ان سے بینک اکائونٹ کھلوانے، لون پروسس اور ایڈوانس کے نام پر وصول کی گئیں۔ طریقہ واردات یہ ہے کہ یہ کمپنیاں ہر چند ماہ بعد نئے نام سے نئی جگہ پر دفتر کھول لیتی ہیں۔ تین چار ماہ میں صرف چند شہریوں کو ہی انہی کی دستاویزات استعمال کرکے مختلف بینکوں سے سود پر قرضہ دلوایا جاتا ہے اور اس میں سے بھی 15 سے 20 فیصد کمیشن کے طور پر وصول کرلیا جاتا ہے۔
دیگر سینکڑوں شہریوں سے اکائونٹ اوپننگ، لون پروسس اور ایڈوانس فیس کے نام پر فی شہری 50 ہزار سے 1 لاکھ روپے تک بٹور کر کروڑوں روپے جمع کرکے رفو چکر ہوجاتی ہیں۔ یہ کمپنیاں سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کی رجسٹریشن اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے لائسنس کے بغیر کاروبار کر رہی ہیں۔ یہ بھی انکشا ف ہوا ہے کہ ان کمپنیوں کا ایک دوسرے سے مضبوط نیٹ ورک قائم ہے اور انہیں بین الصوبائی جعلساز چلا رہے ہیں۔
دوسری جانب سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، اسٹیٹ بینک، ایف آئی اے اور نیب جیسے ادارے مکمل طور پر ان کمپنیوں اور ان کی جعلسازیوں کی جانب سے آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ ان کو پکڑنا زیادہ مشکل کام نہیں۔ ہر اتوار کے اخباروں میں ایسی کئی کمپنیوں کے اشتہارات چھپتے ہیں۔ تحقیقات کے مطابق کمپنیوں کے دفاتر میں ہر آنے والے کلائنٹس کو جھانسا دیا جاتا ہے کہ ایک شخص کو ایک بینک سے زیادہ سے زیادہ 10 لاکھ روپے تک قرضہ دلوایا جاسکتا ہے۔
اگر کسی شخص کو 20 یا 30 لاکھ کا قرضہ لینا ہو تو اسے تین مختلف بینکوں سے دس دس لاکھ کا قرض ایک ساتھ دلوانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ جیسے ہی ان کے اکائونٹس میں بینک کی جانب سے جاری کردہ قرضے کی رقم ٹرانسفر ہو جاتی ہے۔ ویسے ہی کمپنی اس شخص سے اپنے حصے کا کمیشن جو 10 فیصد بنتا ہے، وصول کر لیتی ہے۔
شہریوں کو باور کرایا جاتا ہے کہ قرض کے حصول کیلئے ان کے بینک اکائونٹ کی 6 ماہ کی بینک اسٹیٹ منٹ پیش کرنی پڑتی ہے۔ یہ بینک اسٹیٹ منٹ ایسی ہونی چاہیے کہ اس میں کوئی بھی مہینہ (لوز) نہ ہو۔ یعنی ہر ماہ بینک سے کیش کی ٹرانزیکشن اور ڈپازٹ ہونا ضروری ہے۔ قرضہ لینے والوں کو کہا جاتا ہے کہ کمپنی صرف شہریوں اور بینک کے درمیان رابطہ کار ہوتی ہے۔
ایک بار شہری کو قرضہ ملنے کے بعد بینک اور قرض لینے والے ادائیگی کیلئے آپس میں براہ راست معاملات طے کرتے ہیں۔ کمپنی مالکان اپنا کمیشن لے کر الگ ہوجاتے ہیں ۔ تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ یہ فراڈ مختلف نجی بینکوں میں موجود کالی بھیڑوں کی ملی بھگت سے کیا جاتا ہے۔ جن شہریوں کے پاس قرض لینے کیلئے بینک اسٹیٹ منٹ نہیں ہوتی۔ ان کیلئے جعلی اسٹیٹ منٹ بنوانے کاکام بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے عوض 50 ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں۔
قرضہ لینے کے خواہشمندوں کیلئے 6 ماہ کی ایسی بینک اسٹیٹ فراہم کرنے کی شرط اسی لئے رکھی جاتی ہے کہ وہ اس شرط کو اپنے طور پر پورا نہ کر سکیں اور بینک اسٹیٹ منٹ بنوانے پر مجبور ہوجائیں۔ یہ بھی انکشاف ہوا کہ نجی بینکوں کے ہیڈ کوارٹرز میں موجود کرپٹ افسران کی ملی بھگت سے ان جعلی کمپنیوں کے ذریعے ایسے افراد کو بھی قرضے دلوانے کا جھانسا دیا جاتا ہے جو پہلے سے بنک کرپٹ یا بینک ڈیفالٹرز ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ اگر کوئی شخص بینک سے قرضہ حاصل کرنے کے بعد قرضہ ادا نہ کرے تو اس کو بینک ڈیفالٹر قرار دے کر اس کا نام (CBI) کی لسٹ میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس کو قرضہ دینے کیلئے بلیک لسٹ کردیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شہری کسی بنک سے قرضہ لینے کیلئے اپلائی کرتا ہے تو بینک عملہ اس کے دیگر کوائف کی جانچ پڑتال کے علاوہ ( CBI) کی لسٹ میں بھی اس کا نام چیک کرتا ہے۔ تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ یہ شخص بینک ڈیفالٹر ہے یا نہیں۔ اگر اس شخص کا نام لسٹ میں موجود ہوتو اس کو قرضہ نہیں دیا جاتا ہے۔ بینک ڈیفالٹر کا نام سب سے پہلے مذکورہ بینک کے عملے اور ایف آئی اے کے بعض اہلکاروں کے ساتھ مل کر ( CBI) لسٹ سے نکال لیا جاتا ہے۔ پھر بینک سے قرضہ دلوانے کے بعد دوبارہ اس کا نام لسٹ میں ڈلوادیا جاتا ہے۔ یعنی ملی بھگت کے ذریعے لسٹ سے نام نکلوانے کا کام عارضی طور پر کچھ ہی دنوں کیلیے کیا جاتا ہے۔ تاکہ قرضہ دیتے وقت جب اس شخص کا نام لسٹ میں تلاش کیا جائے تو وہ نہ ملے اور کلیئرنس کی رپورٹ مل جائے۔