اسلام آباد: سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ یا مستعفی ججز کے خلاف جوڈیشل کونسل میں کارروائی جاری رکھنے سے متعلق وفاقی حکومت کی اپیل پر کونسل نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
حکومتی درخواست کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جوڈیشل کونسل کے پانچ رکنی بینچ نے کی۔ کیس میں عدالتی معاونین کے دلائل مکمل ہوگئے۔
دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر کوئی جج سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی شروع ہونے کے بعد درمیان میں مستعفی ہو جائے تو کیا ہوگا؟
عدالتی معاون اکرم شیخ نے کہا کہ میرا موقف ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا انحصار جج کے استعفے سے نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ بھارت میں کلکتہ ہائی کورٹ کی خاتون جج دوران انکوائری ریٹائر ہوئی تو اس کے خلاف کارروائی جاری رہی تھی۔
جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ اگر ایک جج کے خلاف ریفرنس آئے اور سپریم جوڈیشل کونسل نے نوٹس نہ دیا ہو تو کیا وہ ختم ہو جائے گا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سارہ مسئلہ چیف جسٹس کے بطور چیئرمین ریفرنس ٹیک اپ نہ کرنے سے بنا ہے، ججز کے خلاف شکایت نمٹانا صرف چیئرمین کا نہیں بلکہ کونسل کا کام ہے، پچھلے دنوں بھی چیف جسٹس نے کہا کہ 100 سے زیادہ شکایت زیر التواء پڑی ہیں۔
اکرم شیخ نے کہا کہ جب کونسل اجلاس بلانا چیئرمین کا اختیار ہے تو ذمہ داری بھی چیئرمین پر ہے،
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے سامنے دو اہم نکات ہیں، ایک نکتہ یہ کہ ایک بار کونسل شکایت پر نوٹس کرچکی تو جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ سے ختم ہو جائے گی؟ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جج کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد نئے سرے سے ریفرنس ٹیک اپ ہوسکتا ہے؟
اکرم شیخ نے کہاکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ جج ریٹائرڈ ہو جائے اور 10 سال بعد کوئی شکایت اٹھا کر اس کے خلاف کارروائی کردی جائے۔
جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ عافیہ شہربانو کیس جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ کا جھگڑا نہیں ہے، عافیہ شہربانو کیس میں ایک جج کی ریٹائرمنٹ پر اس کے کیخلاف شکایت غیر مؤثر ہوجانے کا معاملہ اٹھایا گیا ہے، اب مدعا یہ ہے کہ جب کونسل شکایت غیر مؤثر قرار دے چکی تو کیا کیا جائے؟
عدالتی معاون اکرم شیخ نے کہا کہ کیس کے فریقین اور میرٹس پر بات نہیں کروں گا، بعدازاں عدالتی معاون اکرم شیخ کے دلائل مکمل ہوگئے۔
دوسرے عدالتی معاون خواجہ حارث نے کہاکہ جج کی ریٹائرمنٹ یا استعفے کے ساتھ ہی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی بے معنی ہوجاتی ہے، ضروری نہیں کہ کوئی جج اسی وجہ سے استعفیٰ دے کہ اس پر لگے الزامات سچ ہیں، جج اپنی تضحیک برداشت نہ کرسکنے پر بھی استعفی دے سکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا جج کو اپنے استعفے کی وجوہات بیان نہیں کرنی چاہئیں؟
خواجہ حارث نے کہا کہ اگر تو قانون جج کو استعفے پر وجوہات بتانے کا پابند بناتا ہے تو دینا لازم ہے، آرٹیکل 209 کا مقصد جج کو عہدے سے برطرف کرنا ہے، جب ایک جج عہدے پر ہے ہی نہیں تو کونسل کی کارروائی کیسے ہوسکتی ہے؟ اگر جج ریٹائرڈ یا مستعفی ہوچکا ہے تو کونسل صدر کو سفارش کیا کرے گی؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک دفعہ شروع کی گئی کارروائی کیا ایک دم سے ختم کردیں؟
خواجہ حارث نے کہا کہ مثال کے طور پر 11 تاریخ کو جج استعفی دے جائے اور 12 تاریخ کو کونسل کارروائی کرے تو جج تو موجود ہی نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 209 شق 5 میں درج ہے کہ جج عہدے پر ہو یا نہیں کونسل کارروائی کرسکتی ہے، جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ کی صورت میں صرف صدر کو سفارش والا حصہ ختم ہو جائے گا، جج کے خلاف شکایت پر انکوائری تو لازم ہوگی، نتیجہ کیا ہوگا یہ بعد میں دیکھا جائے گا، کیا جج نہیں چاہے گا کہ خود پر لگے الزامات سے بری ہوکر گھر جائے؟
خواجہ حارث نے کہا کہ تعزیرات پاکستان کے تحت سزا یافتہ شخص انتقال کر جائے تو اس کی سزا ختم ہوجاتی ہے۔
جسٹس جمال نے کہا کہ اگر سپریم جوڈیشل کونسل فیصلہ کرکے کہ اس نے جج کے خلاف کارروائی کرنی ہے تو اسے کون روک سکتا ہے؟
خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ کونسل کو کاروائی سے روک سکتی ہے، سپریم کورٹ نے افتخار محمد چوہدری سوگ شوکت عزیز صدیقی کیس میں کونسل کو کارروائی سے روکا تھا، اگر کوئی جج جرم کرے تو عام قوانین کا نفاذ اس پر بھی ہوتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر کوئی ایس ایچ او جج کے خلاف مقدمہ درج کرے گا تو کیا وہ جج آزادانہ فیصلہ دے سکے گا؟
اس دوران جسٹس مسرت ہلالی نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ آپ عدالتی معاون ہیں یا وکیل صفائی؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ تمہت تو مجھ پر کوئی اور ہے مگر میں عدالتی معاون ہوں، ہمیشہ ایک ہی موقف رہا ہے کہ جو آئین و قانون میں درج ہے اس سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ بعدازاں عدالتی معاون خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوگئے۔
بعدازاں عدالت نے سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا جو آج ہی سنادیا جائے۔