عمران خان:
حوالہ ہنڈی کے ذریعے کروڑوں روپے مالیت کا زر مبادلہ بیرون ملک منتقل کرنے والی کمپنیوں کے بڑے نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے کے بعد ان کے خلاف کسٹمز انٹیلی جنس کراچی میں منی لانڈرنگ کی کارروائی شروع کر دی گئی۔ ابتدائی طور پر 12 کمپنیوں کے خلاف مقدمات درج کرکے مزید تفتیش کی جا رہی ہے۔ اس معاملے میں تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا گیا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق ڈائریکٹوریٹ آف کسٹمزانٹیلی جنس کراچی نے 12 کمپنیوں کی 9 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی منی لانڈرنگ بے نقاب کرتے ہوئے مقدمہ درج کر لیا۔ تفصیلات کے مطابق ڈائریکٹوریٹ آف کسٹمزانٹیلی جنس کراچی کو موصول خفیہ اطلاع کے مطابق ڈائریکٹرکسٹمزانٹیلی جنس انجینئرحبیب احمد نے متعدد درآمدکنندگان کی جانب سے پاکستان کسٹمز ٹیرف کے چیپٹر 99 کا غلط استعمال کرکے ڈیوٹی وٹیکسزکی سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھا کرکروڑوں روپے مالیت کے ڈیوٹی وٹیکسزکی چوری کی گئی۔
ذرائع کے بقول ان معلومات پر ڈائریکٹرکسٹمز انٹیلی جنس نے چیپٹر 99 کے تحت کلیئرکئے جانے والے کنسائمنٹس کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی، جس میں 12 مختلف کمپنیوں کے حوالے سے انکشاف ہوا کہ میسرز بہاولپوراسٹیل ملز، میسرز بشیر سنز فینسی لائٹ، میسرز ایس ایس ایسوسی ایٹس، میسرز سپریم آئل سروسز، میسرز یونین ٹریڈرز، میسرز احمد میڈکس، میسرز حاز انٹرنیشنل، میسرز دادانٹرنیشنل، میسرز ورٹیکس میڈیکل، میسرزموسیٰ ٹریڈنگ، میسرز ماس اسٹیل فرنس نے 6 کلیئرنگ ایجنٹس میسرز سی اینڈ ایف سلوشن، میسرز زلفی انٹرنیشنل، میسرز مانیا انٹرپرائزز، میسرز پرائم بزنس کارپوریشن، میسرز کوالٹی کسٹمز بروکرز، میسرز وسٹا امپکس، میسرز توحید برادرز کے ساتھ مل کر 20 کنسائمنٹس کی کلیئرنس کی۔ جس میں پاکستان کسٹمز ٹیرف کے چیپٹر 99 سے استثنیٰ حاصل کیا گیا تھا۔
جبکہ کنسائمنٹس کی ادائیگی کے لئے حوالہ ہنڈی کا استعمال کرکے منی لانڈرنگ کی گئی۔ ان کھیپوں کی کلیئرنس میں فائل کی جانے والے گڈز ڈکلریشن میں کسٹمز کو الیکٹرانک امپورٹ فارم نہیں دیا گیا تھا۔ اور ادائیگی کے لئے غیر قانونی راستہ استعمال کرکے زر مبادلہ بھیجا گیا تھا۔
تحقیقات میں سامنے آنے والے شواہد کی روشنی میں ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے مذکورہ درآمدکنندگان کو کسٹمز ایکٹ 1969 کے سیکشن 26 کے تحت نوٹس بھیجے گئے۔ جس میں ان کو ہدایات دی گئیں کہ وہ قانونی طریقے سے ادائیگی کے بارے میں معلومات فراہم کریں جس کے ذریعے انہوں نے غیر ملکی کرنسی بیرون ملک بھیجی تھی۔ درآمدکنندگان کی جانب سے زر مبادلہ ملک سے باہر منتقل کرنے کا کوئی ثبوت پیش نہیںکیاگیا۔ تفتیش میں معلوم ہوا کہ ان 12 درآمدکنندگان نے غیر قانونی طریقوں سے مجموعی طور پر 3 لاکھ 36 ہزار 737 امریکی ڈالر منتقل کئے۔
ڈائریکٹوریٹ کے حکام کے مطابق کسٹمزٹیرف کے چیپٹر 99 کا استعمال کرکے این جی اوز، اسپتال اور دیگر خیراتی ادارے کنسائمنٹس درآمدکرتے ہیں۔جس پرڈیوٹی و ٹیکسزکی چھوٹ ہوتی ہے۔ لیکن مذکورہ بالا درآمدکنندگان نے کلیئرنگ ایجنٹس کے ساتھ مل کر منظم طریقے سے الیکٹرانکس امپورٹ فارم کی ضرورت سے گریز کیا۔ اور چیپٹر 99 کی استثنیٰ کی سہولت ناجائز فائدہ اٹھا کر20 کنسائمنٹس کی کلیئرنس کی اور قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
کسٹمز انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق ملک کو معاشی طور پر نقصان پہنچانے ملزم مالکان، تاجروں، صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کے خلاف موثر کارروائیوں کا فیصلہ کئے جانے کے بعد اس پر مستقل بنیادوں پر عمل در آمد کے لئے اقدامات شروع کردیئے گئے ہیں۔ جس کے لئے خصوصی طور پر اینٹی منی لانڈرنگ کے قوانین کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے لئے ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز انٹیلی جنس کے کراچی، پشاور، کوئٹہ، لاہور اور اسلام آباد کے صوبائی دفاتر کو 100 سے زائد بڑے مالیاتی اسکینڈلز کی فائلیں بھیجی گئیں ہیں۔
ذرائع کے بقول یہ فیصلہ حساس اداروں کی ان رپورٹس کی روشنی میں کیا گیا جو چند ماہ تک کسٹمز، ایف بی آر اور ایف آئی اے کی مختلف ٹیموں کے ساتھ کام کرکے مرتب کی گئی ہیں۔ ان رپورٹوں میں مقتدرہ ادارے اور وفاقی وزارتوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اس وقت ملک کو سب سے زیادہ معاشی نقصان، ٹریڈ بیسڈ منی لانڈرنگ سے پہنچایا جا رہا ہے جس کا حجم ملک سے مجموعی طور پر ہونے والے زر مبادلہ کی غیر منتقلی کا 70 فیصد سے بھی زائد ہے۔
ان رپورٹوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس ٹریڈ بیسڈ منی لانڈرنگ سے وہ 3 طرح کے کمپنی مالکان منسلک ہیں جو بیرون ملک سے منگوائے جانے والے سامان کی قیمتیں مس ڈکلریشن کے ذریعے کم سے کم ظاہر کرکے اربوں روپے کی ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ جبکہ دوسرے نمبر پر ایسے تاجر ہیں جو ملک میں ایران اور افغان ٹرانزٹ سے اسمگلنگ کے ذریعے آنے والے سامان کو جعلی کمپنیاں رجسٹرڈ کروا کر ان کے ذریعے جعلی خرید و فروخت کی بوگس انوائسیں بناکر اپنے لئے اربوں روپے کی سیلز ٹیکس چوری کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ تیسری قسم کے وہ بڑے صنعت کار اور سرمایہ دار ہیں جو مذکورہ دونوں اقسام کی جعلسازیاں، یعنی انڈر انوائسنگ کے ذریعے درآمد کرکے اور اسمگلنگ کا سامان جعلی انوائسوں پر استعمال کرکے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچا رہے ہیں۔
مذکورہ رپورٹوں میں ان حقائق سے بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ ایسے ٹیکس چوروں اور زر مبادلہ غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کروانے والے ہزاروں ایسے کمپنی مالکان کے خلاف گزشتہ کئی برسوں میں ایف بی آر اور کسٹمز کی جانب سے ٹیکس چوری، جعلسازی اور اسمگلنگ کی تمام ہی دفعات کے تحت مقدمات قائم کئے جاتے رہے ہیں۔ تاہم مختلف وجوہات کی بنا پر ان کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔ کیونکہ ان قوانین کے تحت بنائے جانے والے مقدمات میں، ملزمان کو روایتی انداز کی کمزور تفتیش، قوانین شہادت میں موجود سقم اور ماہر وکلا کی خدمات کے ذریعے عدالتوں سے 100 فیصد ریلیف ملنے کا امکان موجود رہتا ہے۔
جبکہ ایسی کارروائیوں میں حکومتی اداروں کے کروڑوں روپے کے وسائل صرف ہوجاتے ہیں اور ریکوری کچھ بھی نہیں ہو پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف ٹیکس چوری، اسمگلنگ اور جعلسازیوں سے مالیاتی جرائم کرنے کے ہر کیس میں اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت ایک نیا کیس بنایا جائے۔