ارشاد کھوکھر:
وزیراعظم کے انتخاب کے بعد 9 مارچ کو صدارتی انتخابات کے حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان اور جے یو آئی کے ساتھ تمام چھوٹی جماعتوں کی بھی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ صدارتی انتخابات میں شمار ہونے والے 696 ووٹوں میں سے نواز لیگ، پیپلزپارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے پاس سادہ اکثریت موجود ہے۔ تاہم آصف علی زرداری چاہیں گے کہ وہ دوتہائی اکثریت سے ایک بار پھر صدر مملکت بن جائیں۔
اس لیے انہیں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، جے یو آئی ف، عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کی بھی حمایت درکار ہوگی۔ جب کہ سینیٹ انتخابات سے قبل صدارتی انتخابات میں کامیابی کا فائدہ بھی حکومتی اتحاد کو ہوگا۔ کیونکہ 10 مارچ کو جو 48 سینیٹرز ریٹائرڈ ہوں گے ان میں سب سے تقریباً 25 سینیٹرز کا تعلق نواز لیگ اور پیپلزپارٹی سے ہے۔
جبکہ پی ٹی آئی کے صرف 8 سینیٹر ریٹائر ہوں گے اس کے باوجود بھی 17 سینیٹرز ان کے موجود رہیں گے۔ اور سینیٹ کے نئے انتخابات میں سنی اتحاد کونسل 14 سے 15 نئے سینیٹرز بھی منتخب کرا سکتی ہے۔
صدارتی انتخابات کے الیکٹرول کالج کو دیکھا جائے تو اس میں چاروں اسمبلیوں کے ساتھ قومی اسمبلی کے اور سینیٹ کا ایوان بھی شامل ہے۔ صدارتی انتخابات میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کی ہر رکن کا ایک، ایک ووٹ شمار ہوتا ہے۔ جبکہ صوبائی اسمبلیوں میں ہر اسمبلی کے ووٹ ایک جتنے یعنی 65، 65 شمار ہوتے ہیں۔ کیونکہ صوبائی اسمبلیوں میں سے سب سے کم نشستیں بلوچستان اسمبلی کی ہیں جو 65 ہیں۔ اس طرح قومی اسمبلی اور سینیٹ کی طرح صرف بلوچستان اسمبلی کے ہر رکن کا مذکورہ انتخابات میں ایک، ایک ووٹ شمار ہوتا ہے جبکہ سندھ اسمبلی کا ایوان 168 پر مشتمل ہونے کے باعث سندھ اسمبلی میں 2 اعشاریہ 584 کے تناسب سے ایک ووٹ شمار ہوتا ہے۔
اس طرح خیبر پختون اسمبلی کا ایوان 145 پر مشتمل ہونے کے باعث وہاں صدارتی انتخابات میں ایک ووٹ 2 اعشاریہ 230 کی شرح سے اور پنجاب اسمبلی میں ایک ووٹ 5 اعشاریہ 707 کے تناسب سے شمار ہوتا ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو صدارتی انتخابات میں سندھ اسمبلی کے 65 میں سے پیپلزپارٹی کے اپنے اراکین کے ووٹ تقریباً 43 ہو جاتے ہیں۔ اگر انہیں متحدہ کے ووٹ بھی مل جائیں گے تو سندھ میں ان کے ووٹ تقریباً 57 سے بھی زیادہ ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ روز مریم نواز کو وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے پنجاب اسمبلی سے جو ووٹ ملے ہیں اس حساب سے صدارتی انتخابات کے لیے 65 میں سے تقریباً 39 ووٹ حکومتی اتحاد کے ہاتھ میں ہیں۔
پیپلزپارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 260 میں سے آصف علی زرداری کو صدر کیلئے 160 ووٹ آسانی سے مل سکتے ہیں، جن میں بلوچستان سے بھی 45 سے 50، پنجاب سے 39 سے 40 اور خیبر پختون اسمبلی سے 7 سے 10 ووٹ مل سکتے ہیں، جبکہ قومی اسمبلی کے 336 ووٹ میں سے 200 سے زائد اور سینیٹ میں 100 میں تقریباً 65 سے 70 ووٹ حکومتی اتحاد کے امیدوار کو مل سکتے ہیں۔
جہاں تک موجودہ صدر مملکت عارف علوی کی مدت کی بات ہے تو وہ تو ستمبر 2023ء میں ویسے ہی پوری ہوگئی تھی۔ اس لیے صدارتی انتخابات پہلے ہوں گے۔ اس کے بعد سینیٹ کے نئے اتنخابات ہوں گے۔ 10 مارچ سے جو سینیٹرز ریٹائرڈ ہورہے ہیں، ان میں زیادہ تعداد اتحادیوں کی ہے جن میں سے سب سے زیادہ نواز لیگ کے 13 سے 14، پیپلز پارٹی کے 12 سینیٹر شامل ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی کے صرف 8 سینیٹر ریٹائر ہو جانے کے باوجود بھی ان کے 17 سینیٹرز رہ جائیں گے جن کی مدت مارچ 2027ء تک ہے اور سینیٹ کے جو نئے انتخابات ہوں گے اس میں سنی اتحاد کونسل کے ٹکٹ پر خیبر پختون اور پنجاب اسمبلی سے 15 نئے سینیٹرز منتخب ہو سکتے ہیں۔
صدارتی انتخابات کے لیے جو 696 ووٹ شمار ہوتے ہیں، ان میں سے دیکھا جائے تو چاروں صوبائی اسمبلیوں، سینیٹ اور قومی اسمبلی سمیت نواز لیگ کے پاس اس حوالے سے تقریباً 176 ووٹ ہیں۔ پیپلزپارٹی کے پاس تقریباً 170 اور بلوچستان عوامی پارٹی کے پاس 11 ووٹ ہیں۔ ان تینوں جماعتوں کے ووٹوں کو ہی دیکھا جائے تو وہ 357 ووٹ بنتے ہیں اور صدارتی انتخابات میں کامیابی کے لیے کسی بھی امیدوار کو کم از کم 349 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ لیکن آصف علی زرداری چاہیں گے کہ وہ پہلے کی طرح دوتہائی اکثریت سے کامیاب ہوں۔ جس کے لیے 464 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں متحدہ کے 39 اور جے یو آئی ف کے 27 ووٹوں کی بھی ضرورت پڑے گی۔
اسی طرح اے این پی کے بھی 5 ووٹ ہیں۔ اس میں دیگر چھوٹی جماعتیں جن میں نیشنل پارٹی، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی، بی این پی سمیت دیگر جماعتوں کے بھی ووٹ ہیں۔ اس صورت حال میں متحدہ کے 39 ووٹوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ ایسے میں مذکورہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے پیپلزپارٹی کو بڑی قربانی نہیں دینا پڑے گی۔ بلکہ اس کا بوجھ نواز لیگ کو اٹھانا پڑے گا۔ کیونکہ دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان جو شیئرنگ فارمولا طے ہوا ہے
اس کے مطابق پنجاب اور خیبر پختون میں گورنر پیپلز پارٹی کے سفارش کردہ سندھ اور بلوچستان میں نواز لیگ کی سفارش پر بنیں گے۔ جس کے باعث نواز لیگ کو سندھ کی گورنر شپ کا عہدہ چھوڑ کر متحدہ کو دینا پڑے گا۔ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صدارتی انتخابات کے ووٹوں کے لیے پیپلزپارٹی کے پی کے کی گورنر شپ جے یو آئی ف کو دے دے۔
صدارتی انتخابات میں ووٹوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نثار احمد کھوڑو اور جام مہتاب ڈہر سینیٹرز ہیں اور انہوں نے 8 فروری کے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ قانون کے مطابق انہیں اپنے پاس کوئی ایک عہدہ رکھنا پڑے گا۔ سینیٹ یا صوبائی اسمبلی کی رکنیت پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس لیے انہیں صوبائی اسمبلی میں حلف اٹھانے سے روکا ہے کہ وہ صدارتی انتخابات میں سینیٹر کی حیثیت سے ووٹ کاسٹ کریں کیونکہ سینیٹر کی حیثیت سے صدارتی انتخابات میں ان کے دو ووٹ شمار ہوں گے اگر وہ سینیٹر شپ سے مستعفی ہو کر رکن سندھ اسمبلی کے رکن کی حیثیت ووٹ کاسٹ کریں گے تو ان دونوں کا ایک ووٹ سے بھی کم شمار ہوگا۔
پیپلزپارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ صدارتی انتخابات کے بعد نثار احمد کھوڑو اور جام مہتاب ڈہر سینیٹر شپ سے مستعفی ہو کر رکن سندھ کی حیثیت سے حلف لیں گے جس سے سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے اراکین کی تعداد 114 ہو جانے کے باعث پیپلزپارٹی سینیٹ کے آئندہ انتخابات سندھ سے 12 میں 11 اپنے نئے سینیٹر بغیر کسی اور کی حمایت سے کامیاب کرا سکیں گی۔