اسلام آباد: نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نےعدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ پوری ریاست کو مجرم تصور کرنا درست نہیں،غیر ریاستی عناصر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں آج بلوچ طلبا کی بازیابی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔ نگران وزیراعظم لاپتہ بلوچ طلبہ کیس میں طلب کیے جانے پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پرآئے اور بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہماری معلومات کے مطابق 2 لاپتہ بلوچ طلبا افغانستان میں ہیں۔ 4 بلوچ طلبا کو ٹریس نہیں کیا جا سکا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کچھ لاپتہ افراد دہشتگرد تنظیم کا حصہ بن گئے ہیں، کچھ لاپتہ افراد بازیابی کے بعد گھر پہنچ چکے ہیں۔ درخواست گزار نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر آواز اٹھائی تھی، یہ اداروں کی ہی کاوش ہے کہ لاپتہ افراد کا پتہ لگایا گیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے نگران وزیراعظم سے مخاطب ہوکرکہا کہ عدالت میں کئی سماعتیں ہوچکی ہیں۔ لاپتہ بلوچ طلبا سے متعلق کیس کافی عرصے سے زیر سماعت ہے، ہم سب قانون کے تابع ہیں۔
اس دوران نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں جواب دہ ہوں اور سب کو قانون کےمطابق ہی کام کرنا چاہیے، زندہ رہنے کا حق سر فہرست ہے۔ بلوچستان سے تعلق ہونے کی وجہ سے وہاں کے حالات کا زیادہ علم ہے، بلوچستان میں مسلح مزاحمت ہو رہی ہے۔ اُس کا جواب اٹارنی جنرل، درخواست گزار یا کسی اور کے پاس نہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ریاستی اداروں کو بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اداروں نے ہی ان طلبا کو کلیئر کیا اور وہ گھروں کو پہنچے ہیں،ادارے قانون سے مستثنٰی نہیں ۔ وزیراعظم، وزرا، سیکریٹریز اور عدالتیں بھی جوابدہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جس پر کوئی کیس ہو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کریں۔ جب جبری گمشدگیوں کا معاملہ آتا ہے تو صورتحال بدل جاتی ہے، پاکستان پر بطور ریاست بھی الزامات لگتے ہیں۔ عدالت نے انٹیلی جنس ایجنسیز کے سربراہان پر مشتمل کمیٹی اسی لیے بنائی ہے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان میں دہشتگردوں نے لوگوں کو بسوں سے اتار کر جلایا ہے۔ 90 ہزارافراد آج تک ملک میں دہشت گردوں کا نشانہ بن چکے ہیں، فرقہ واریت کی بنا پر لوگوں کے نام پوچھ کر قتل کیے گئے ہیں۔ تم چوہدری ہو گولی، تمہارا نام گجر ہے گولی، یہ سلسلہ ہے، ایک سابق چیف جسٹس بلوچستان میں نماز کی ادائیگی کے دوران شہید ہوئے۔
نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یواین کا بھی ایک طریقہ ہے وہ پوچھتے ہیں کون لاپتہ ہوا؟ وہ پوچھتے ہیں آپ جسٹس محسن اختر کیانی ہیں آپ لاپتہ ہو گئے ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ مجھے بتا رہے ہیں کہ میں نے جبری لاپتہ ہو جانا ہے؟۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں مثال دے رہا ہوں، میں انوار کا نام لے لیتا ہوں۔ کلاشنکوف اٹھانے والا اور نہتا فرد ایک جیسے نہیں ہوسکتے، یہ کہتے ہیں کہ طلبہ کی لسانی بنیادوں پر پروفائلنگ نہ کریں۔ سسٹم میں کمی اور خامیاں ہیں، ثبوت نہیں آتا تو کس کو کیسے سزا دیں۔ پیرا ملٹری فورسز، کاؤنٹر ٹیرارزم کے اداروں پر الزامات لگائے جاتے ہیں۔
دورانِ سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اسی ملک نے بڑے بڑے دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔ سسٹم کمزور ضرور ہے لیکن بے بس نہیں، اتنی سماعتیں ہوچکی ہیں آج پتہ چلا ہے کہ کچھ لوگ سی ٹی ڈی کے پاس ہیں۔ اتنے عرصے سے کیس چل رہا ہے، ان کا ٹرائل کیوں نہیں ہو سکا؟ یہ ریاست کی ناکامی ہے کہ اُن کا ٹرائل نہیں ہو سکا۔
انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا فوج میں بھرتی ہوتا ہے تو میں کیا چاہوں گا؟ میرا بیٹا فوج میں بھرتی ہوتا ہے توکیا قانون میرے ساتھ کھڑا ہو یا دہشت گردوں کے ساتھ؟
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بلوچستان کے علاوہ یہ وفاق کا واقعہ ہے ایک صحافی کو اغوا کیا گیا۔ اس صحافی کے کیس کی ججمنٹ کو ہم مثال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ صحافی کو اسلام آباد سے اٹھایا گیا، ویڈیوز بھی بنیں۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ اس صحافی کو کسی نے اٹھایا تو اس کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے۔ جس کسی نے بھی ایسا کیا ہے اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ ہم سب نے قانون کی پاسداری کرنی ہے، آئین مجھ سے غیرمشروط وفاداری کا مطالبہ کرتا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ آپ خوبصورت باتیں کر رہے ہیں لیکن ہمارے پاس بہت سی مثالیں ہیں۔ ہمیں بلوچستان جانے کی ضرورت نہیں، اسلام آباد سے لوگوں کو اٹھایا گیا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ اتنا آسان نہیں کہ لواحقین کے نام پر بھاگتے ہوئے آئیں اور ہم پر چڑھائی کریں۔ ہم نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے، یہ ایگزیکٹو کا اختیار ہے، انہیں ہی کرنے دیں۔
بعد ازاں عدالت نے سی ٹی ڈی کی تحویل میں افراد کے خلاف مقدمات کی تفصیل درخواست گزار کو فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔