اسلام آباد(اُمت نیوز)نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے پارلیمنٹ میں ارکان کی آمد جاری ہے، مسلم لیگ (ن) کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار شہبازشریف نے اتحادی جماعتوں کے ارکان کے اعزاز میں ناشتے کا اہتمام کیا ہے۔
اس سلسلے میں اتحادی جماعتوں کے ارکان بینکوٹ ہال پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنا شروع ہوگئے، خورشید شاہ، خواجہ آصف، مریم اورنگزیب، امیر مقام، عامر ڈوگر، شیخ آفتاب، حنیف عباسی، رانا تنویر، سردار یوسف اور ریاض پیرزادہ پہنچ گئے ہیں۔
اس کے علاوہ ایم کیو ایم اور استحکام پاکستان پارٹی کے ارکان بھی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے ہیں۔
وزارتِ عظمیٰ کےلیے ن لیگ اور اتحادیوں کے نمبر 200 ہیں، 326 کے ایوان میں سادہ اکثریت کےلیے 169 ووٹ ضروری ہیں۔
تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے پاس 92 ممکنہ ووٹ ہیں، دوسری طرف جے یو آئی ف نے اب تک وزارتِ عظمیٰ کے انتخاب میں لاتعلق رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آئینِ پاکستان کے تحت قومی اسمبلی سے وزیرِ اعظم کے انتخاب کے لیے امیدوار کا مسلمان ایم این اے ہونا ضروری ہے۔
اسپیکر کے حکم پر وزیرِ اعظم کا انتخابی عمل شروع ہونے سے قبل 5 منٹ تک گھنٹیاں بجائی جائیں گی، گھنٹیاں بجانے کا مقصد تمام اراکین کو اسمبلی کے اندر جمع کرنا ہے۔
گھنٹیاں بجائے جانے کے بعد ایوان کے دروازے مقفل کر دیے جائیں گے، جس کے بعد قائدِ ایوان کے انتخاب تک قومی اسمبلی ہال سے نہ کوئی باہر جا سکتا ہے نہ کسی کو اندر آنے کی اجازت ہوتی ہے۔
اس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی وزارتِ عظمیٰ کے نامزد امیدواروں کے نام پڑھ کر سنائیں گے، قائدِ ایوان کے انتخاب کے لیے ایوان کی تقسیم کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔
اسپیکر ایک نامزد امیدوار کے لیے دائیں اور دوسرے کے لیے بائیں طرف کی لابی مختص کرتے ہیں، قومی اسمبلی کا ہر رکن جس امیدوار کو ووٹ دینا چاہتا ہے، اس کی لابی کے دروازے پر اپنے ووٹ کا اندراج کراتا ہے اور پھر انتخابی عمل مکمل ہونے تک لابی میں چلا جاتا ہے۔
اس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی ووٹنگ مکمل ہونے کا اعلان کرتے ہیں اور ایک بار پھر 2 منٹ تک گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں تاکہ ارکان لابی سے واپس ایوان میں آ جائیں۔
اس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی قائد ایوان کے انتخابی نتائج کا اعلان کرتے ہیں اور کامیاب امیدوار قومی اسمبلی کے قائدِ ایوان و ملک کے وزیرِ اعظم بن جاتے ہیں۔
اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 8 فروری کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرلیا اور ان کے ارکان کا حلف اٹھانا، اسپیکر، ڈپٹی سپیکر اور وزیراعظم کا الیکشن لڑنا اس بات کا ثبوت ہے۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ شہبازشریف کے وزیراعظم بننے میں کوئی شبے والی بات نہیں، وہ بھی اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی طرح بھاری اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہوجائیں گے۔
ن لیگی رہنما نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی پہلے کی طرح آج بھی ایوان میں شور شرابہ کرے گی، انہیں چاہیئے کہ فساد اور انتشار کے بجائے مسائل کے حل کے لیے ایوان میں مثبت کردار ادا کریں۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی جانب سے محمود اچکزئی کو صدارتی امیدوار نامزد کرنے پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی، بانی پی ٹی آئی محمود اچکزئی اور پرویز الہٰی کے بارے میں نازیبا کلمات ادا کیا کرتے تھے، ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ جو بھی بات کریں اس کے الٹ کام کریں گے، یو ٹرن لینا تو بانی پی ٹی آئی کا ہی شیوہ ہے۔
احسن اقبال نے یہ بھی کہا کہ تحریک انصاف اتنی نالائق ہے کہ 2 سال میں پارٹی الیکشن کرا کے اپنا انتخابی نشان بھی نہیں بچا سکی، جو جماعت اپنی مخصوص نشستیں بچانے کیلئے بھی صحیح فیصلے نہ کرسکے اس کے حوالے پاکستان کیسے کیا جاسکتا ہے، جو اپنی جماعت صحیح طریقے سے نہیں چلا سکتے وہ ملک کو کیا چلائیں گے۔
ن لیگی رہنما کا مزید کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے دوست آج شہباز شریف کو ووٹ دیں گے، جے یو آئی سے مثبت بات چیت رہی ، نوازشریف نے تمام تحفظات دور کرنے کی ہدایت کردی، پوری امید ہے کہ مستقبل میں جمعیت علماء اسلام ہمارے ساتھ مل کر چلے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عامر ڈوگر نے کہا کہ ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے، ہمارا چوری شدہ مینڈنٹ واپس دیا جائے، عوام نے 8 فروری کوخاموش انقلاب نے ووٹ دیا، 180 نشستیں ملنے پر ہم اکثریت جماعت بن جاتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی رہنما مریم اورنگزیب نے کہا کہ کچھ دیر بعد شہبازشریف وزیراعظم منتخب ہو جائیں گے، آج ایک خوشخبری کا دن ہے، کچھ لوگ عوام کی خدمت میں مہارت رکھتے ہیں، 10 سالوں سے ایک مخصوص جماعت احتجاج اور دھرنوں کو فروغ دیے ہوئے ہے۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ 2018 کا جو سفر رکا تھا وہ دوبارہ شروع ہوگا، ترقی کا سفر شروع ہو گا اور ملک میں استحکام ہوگا، ملک مشکل حالات میں ہے تمام جماعتیں ملکرعوام کی خدمت کریں، احتجاج کے بجائے ملک کی خدمت میں وقت صرف کریں۔
اس موقع پر مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف سے سوال کیا گیا کہ محمود خان اچکزائی نے بے وفائی کردی؟ جس پر خواجہ آصف نے جواب دیا کہ وہ علیحدہ جماعت ہیں۔
ایک سوال کیا گیا کہ پی ڈی ایم میں تو آپ کے ساتھ تھے، جس کے جواب میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم سے اب ختم ہوچکی، مولانا فضل الرحمان مان جائیں گے، کوشش کررہے ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر کنوینر فاروق ستار نے کہا کہ ن لیگ کی حمایت اور تعاون کا اعلان کیا ہوا ہے، مشکل سفر کے لیے سیاسی بصیرت اور برد باری کی ضرورت ہے، ہم سب جیت کر تو آگئے لیکن اب کامیاب ہونے کی باری ہے، حکومت اور ہم سب کی کامیابی ملکی حالات کی درستگی میں ہے۔
پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی نے کہا کہ امید ہے ملک مین سیاسی استحکام آئے، وزیراعظم اور کابینہ لوگوں کے مسائل حل کریں۔
سنی اتحاد کونسل کی جانب سے نامزد وزیراعظم عمر ایوب سے سوال کیا گیا کہ نمبر کس طرح پورے کریں گے؟ جس کے جواب میں عمر ایوب نے کہا کہ دکھیں انشاء اللہ، اللہ خیر کرے گا۔
ایک اور سوال کیا گیا کہ اپوزیشن جماعتیں آپ کو ووٹ دیں گی، جس پر عمر ایوب نے کہا کہ دیکھیں۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز نے کہا کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے، مسائل کے حل کے لیے محنت کریں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عاطف خان نے کہا کہ پارٹی کے امیدوار کو سپورٹ اور ووٹ کریں گے، حکومت چلانا اتنا آسان نہیں ہوگا۔
عاطف خان سے سوال کیا گیا کہ محمود خان اچکزائی کی آپ کیسے حمایت کررہے ہیں، جس کے جواب میں پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ جس اشو پر ہم کھڑے ہیں اسی کی اچکزائی حمایت کررہے ہیں، محمود خان اچکزائی پرانے سیاستدان ہیں سمجھ دار ہیں۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور مسلم لیگ ن کے رہنما جام کمال نے کہا کہ چیلنجز اور مسائل بہت سارے ہیں، اس وقت قیادت کے ساتھ پارلیمان کا اتفاق رائے ضروری ہے، موجودہ معاشی حالات میں سخت اقدامات کی ضرورت ہے، عوام کو پارلیمان سے بہت ساری امیدیں ہیں، عوام کی امیدوں پر پورا اترنا تمام سیاسی جماعتوں کے لیے بڑا چینلج ہے۔
مسلم لیگ (ضیاء) کے سربراہ اعجاز الحق نے کہا کہ پارلیمنٹ میں اس طرح کا ماحول رہنا چاہیئے،مستقبل میں جاکر اپوزیشن بہتر کردار ادا کرسکتی، قانون سازی میں اپوزیشن اپنا کردار ادا کرسکتی، گالم گلوچ کا ماحول رہا تو نقصان جمہوریت کا ہی ہے۔
سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا سے سوال کیا گیا کہ آج ایوان میں کیا حکمت عملی ہوگی؟ جس کے جواب میں حامد رضا نے کہا کہ ڈاکوؤں کے لیے کیا حکمت عملی ہو سکتی ہے، وہی حکمت عملی جو پچھلے 2 دن سے ہے۔
حامد رضا کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے انتخاب کے عمل کا بائیکاٹ نہیں ہوگا۔ بائیکاٹ والی بات ن لیگ بھول جائے۔