واشنگٹن ( اُمت نیوز ) امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ رمضان کے آغاز تک غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنا "مشکل لگتا ہے”۔
عرب میڈیا کے مطابق بائیڈن نے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں تشویش ہے کہ اگر غزہ میں جنگ بندی نہ ہوئی تو مشرقی یروشلم میں کشیدگی اور تشدد میں اضافہ ہوگا۔
دوسری جانب حماس نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کیلئے اپنے مطالبات سے دستبردار نہیں ہو گی۔
حماس غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کو مکمل طور پر بند کرنے اور امداد، بے گھر لوگوں کے لیے پناہ گاہوں کا انتظام کرنے اور تعمیر نو کی کارروائیوں کے آغاز کا مطالبہ کرتی ہے۔
اس سال رمضان کا مہینہ فلسطینیوں کے موجودہ حالات، غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جنگ اور مغربی کنارے پر عائد پابندیوں کی وجہ سے غیر معمولی طور پر خوف کی فضا میں آ رہا ہے۔ رمضان کے دوران مشرقی یروشلم اور فلسطین کے دوسرے علاقوں میں تشدد اور کشیدگی میں اضافے کے خدشات سے ہیں۔
مغربی کنارے کے لوگ ہر سال یروشلم شہر جانے اور مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کے لیے رمضان کے مہینے کا انتظار کرتے ہیں لیکن غزہ پر جنگ اور اسرائیلی پابندیوں اور اقدامات کی وجہ سے یہ سال مختلف نظر آتا ہے۔
اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بین گویر نے سال 1948ء کے علاقوں سے نمازیوں کے مسجد اقصیٰ میں داخلے پر شرائط عائد کرنے کی کوشش کی، لیکن جنگی کابینہ نے زمین پر بالخصوص یروشلم میں صورتحال خراب ہونے کے خوف سے ان کی درخواست کو نظر انداز کر دیا۔
واضح رہے کہ غزہ میں اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں اب تک 30ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جبکہ 72ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں، پانچ ماہ سے زائد عرصے سے اسرائیلی بمباری اور زیر محاصرہ غزہ میں لاکھوں فلسطینی اس وقت قحط کی زد میں ہیں۔