اسلام آباد(اُمت نیوز) آصف علی زرداری بھاری اکثریت سے دوسری بار 14 ویں صدر مملکت منتخب ہوگئے۔
آصف علی زرداری 255 ووٹ لیکر 14 ویں صدر منتخب ہوگئے، ان کے مدمقابل محمود اچکزئی کو 119 ووٹ ملے۔
پنجاب اسمبلی میں 352 ووٹ کاسٹ ہوئے، آصف زرداری کو 246 ووٹ ملے اور محمود خان اچکزئی نے 100 ووٹ حاصل کئے جبکہ چھ ووٹ مسترد ہوئے، سندھ اسمبلی میں آصف زرداری کو 151 ووٹ ملے، محمود خان اچکزئی کو 9 ووٹ ملے جبکہ ایک ووٹ مسترد ہوا۔
بلوچستان اسمبلی میں 47 ووٹ کاسٹ ہوئے اور تمام آصف زرداری کو ملے، خیبرپختونخوا اسمبلی میں 109ووٹ کاسٹ ہوئے، 91 ووٹ محمود خان اچکزئی کو ملے،17 ووٹ آصف زرداری کو ملے جبکہ ایک ووٹ مسترد ہوا، صدر کےانتخاب میں جیت کیلئے348 ووٹ درکار تھے۔
نومنتخب صدر مملکت کی حلف برداری کل ہوگی، وزیراعظم شہبازشریف، نوازشریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو، محمودخان اچکزئی سمیت ارکان اسمبلی نے ووٹ کاسٹ کیا، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس اور جے یو آئی ف نے صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ کیا۔
صدر مملکت کے انتخابات کیلئے قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں صبح 10 بجے شروع ہونے والی پولنگ کا عمل شام 4 بجے تک جاری رہا۔
حکمران اتحاد کی جانب سے پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری امیدوار تھے جبکہ ان کے مدمقابل سنی اتحاد کونسل کے نامزد محمود خان اچکزئی تھے۔
قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین نے صدارتی انتخاب کیلئے اپنا اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔
قومی اسمبلی میں پولنگ کا عمل شروع ہوا تو سب سے پہلا ووٹ پیپلز پارٹی کے عبدالحکیم بلوچ نے کاسٹ کیا، سندھ اسمبلی میں موجود تمام ارکان نے ووٹ کاسٹ کیا، سندھ اسمبلی میں 161 ارکان اسمبلی نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا، جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ جی ڈی اے پہلے ہی صدارتی انتخابات کا بائیکاٹ کر چکی ہے۔
خیبرپختونخوا اسمبلی میں بھی صدارتی انتخاب کیلئے پولنگ ہوئی، خیبر پختونخوا اسمبلی میں 109 ممبران نے ووٹ کاسٹ کیا۔
بلوچستان اسمبلی میں بھی 47 ارکان نے ووٹ کاسٹ کئے، جے یو آئی (ف)، جماعت اسلامی اور حق دو تحریک کے اراکین نے پولنگ میں حصہ نہیں لیا۔
حکومتی اتحاد کے صدارتی امیدوار آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پہلے بھی جو ہوا پارلیمنٹ نے کیا اب بھی پارلیمنٹ کرے گی۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافی نے ان سے سوال پوچھا کہ آپ نے پہلے بھی آئین میں 18 ویں ترمیم کی مزید کیا اقدام کریں گے۔
آصف زرداری نے جواب دیا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ نے کی، ہم نے صرف ایڈوائس کی تھی۔
سنی اتحاد کونسل کے نامزد صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی نے کہا کہ جو لوگ حکومت میں بیٹھے ہیں وہ چھوٹے ہیں، مسائل بڑے ہیں۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محمود اچکزئی کا کہنا تھا کہ حکومت میں موجود لوگوں کو سیاست کی سمجھ نہیں۔
صدارتی الیکشن میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کیلئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور پنجاب اسمبلی کیلئے الیکشن کمیشن کے ممبر نثار درانی کو پریذائیڈنگ افسر مقرر کیا گیا تھا۔
سینیٹر شیری رحمان کو آصف علی زرداری کی پولنگ ایجنٹ مقرر کیا گیا تھا جبکہ سینیٹر شفیق ترین، محمود خان اچکزئی کے پولنگ ایجنٹ تھے۔
سندھ اسمبلی کیلئے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ، خیبرپختونخوا اسمبلی کیلئے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور بلوچستان اسمبلی کیلئے چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ پریذائیڈنگ افسر تھے۔
آصف علی زرداری کو مسلم لیگ (ن)، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق)، استحکام پاکستان پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی اور عوامی پارٹی کی حمایت حاصل تھی جبکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو سنی اتحاد کونسل سپورٹ کر رہی تھی۔
جمعیت عمائے اسلام اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) نے صدارتی انتخاب کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا تھا۔
واضح رہے کہ سینیٹ، قومی اسمبلی اور ملک کی چاروں صوبائی یعنی خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کے اراکین کی کُل تعداد 1185 ہے، ان میں سے سینیٹ ارکان کی تعداد 100، قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 336 جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے کُل ارکان کی تعداد 749 ہے۔
اس موقع پر اسلام آباد کے ریڈ زون میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔
شہر بھر میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی اور 600 سے زائد پولیس اہلکار سکیورٹی کے فرائض انجام دیتے رہے، غیر متعلقہ افراد کے ریڈ زون میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی تھی اور پارلیمنٹ کے اندر جانے کی اجازت صرف پاسز کے حامل افراد کو ہی دی گئی تھی۔
اسلام آباد میں صدارتی انتخاب کے موقع پر اراکین پارلیمنٹ کیلئے ناشتے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا، پاکستان پیپلز پارٹی کے زیر اہتمام مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کیلئے ناشتے کا انتظام کیا گیا تھا۔
ارکان اسمبلی کی حلوہ پوری، نان چنے، انڈے، قیمہ، گرما گرم پراٹھے اور کلب سینڈوچ سے تواضع کی گئی۔