اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے سابق چیئرمین عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلیں میرٹ پر سننے کا فیصلہ کرلیا۔
بدھ کے روز چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق اور جسٹس گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔
بانی پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل سلمان صفدر، تیمور ملک اور شاہ محمود قریشی کی طرف سے علی بخاری و دیگر عدالت میں پیش ہوئے، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے اسپیشل پراسیکوٹرز جسٹس ریٹائرڈ حامد علی شاہ، ذولفقار نقوی و دیگر بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر آنے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالتی سوالات پر مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ باقی چیزوں کو دیکھا جائے گا ابھی یہاں ایک ہی چیز پر اعتراض اٹھایا گیا تھا، اس پر بتائے۔
وکیل سلمان صفدر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ سائفر کیس میں درخواست گزاروں کے خلاف جن دفعات کے تحت ٹرائل چلایا گیا، دونوں درخواست گزار تو آرمڈ فورسز کے ممبر نہیں نہ ہی ان کا کورٹ مارشل ہوا ہے، ان کو اسپیشل لا اور جنرل لا دونوں میں سزا ہوئی۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کریمنل پروسیجرل لا میں ترمیم کرکے اپیل کا حق دیا گیا ہے، میں لاہور کے کرشن گوپال کیس 1954 کا حوالہ دے رہا ہوں جس کا ٹرائل آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ہوا تھا، کرشن گوپال کیس کا ٹرائل بھی اسپیشل جج نے کیا تھا۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے بھارتی عدالتوں میں کریمنل پروسیجر کا بھی حوالہ دیا، جس پر عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ جو بتا رہے ہیں کیا وہ سب آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں موجود ہے؟
اس کے جواب پر عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کریمنل لا 1958 اور 1976 کے حوالے دے دیے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ جن قوانین کا حوالہ دے رہے ہیں اس کا تو یہی مطلب ہے کہ چیزیں موجود ہیں۔
اس موقع پر بیرسٹر سلمان صفدر نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شاہ صاحب نے کہا کہ اپیل کا حق نہیں۔
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے اسپیشل پراسیکیوٹر سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا، انہوں نے کہا کہ کریمنل اپیل میں پراسیکیوٹر کی تعیناتی کا سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، اسپیشل کورٹس کے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ جانے کا حق حاصل ہے، ہائیکورٹ ہی کا دائرہ اختیار ہے کہ وہ اسپیشل کورٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیل سنیں۔
اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ایک چیز یاد رکھیں کہ اپیل، رٹ سے مختلف چیز ہے۔
مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالوں کے ساتھ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکیل کے دلائل مکمل ہوگئے۔
دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے ایف آئی اے پراسیکوٹر سے استفسار کیا کہ شاہ صاحب آپ نے کچھ اس پر کہنا ہے؟ ساتھ ہی پراسیکیوٹر کو ہدایت دی کہ پروسیجر آف ٹرائل کورٹ پرآپ عدالت کو اسسٹ کریں۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے ایک بار پھر درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 میں واضح ہے کہ ان کیسز میں اپیل کا حق نہیں۔
عدالت نے ان سے دریافت کیا کہ یہ جو باتیں آپ بتارہے ہیں کیا یہ پروسیجر آف ٹرائل کا ہے یا کسی اور چیز کا؟
چیف جسٹس نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر کو کہا کہ اپیل بھی ٹرائل کا تسلسل ہوتی ہے، اس نکتے پر آپ ہمیں بتائیں، جس پر حامد علی شاہ کا کہنا تھا کہ میری استدعا ہو گی کہ اپیل صرف اس صورت میں ٹرائل کا تسلسل ہے جہاں ایکٹ میں اپیل کا حق دیا گیا ہو، اگر قانون میں اپیل کا حق ہی نہیں دیا گیا تو معاملہ ٹرائل کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہم پیر سے ان اپیلوں کو میرٹ پر سنیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے آئندہ سماعت سے اپیلوں پر میرٹ پر دلائل سننے کا فیصلہ کرتے ہوئے سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 18 مارچ تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف دائر اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر پی ٹی آئی کے وکلا سے دلائل طلب کرلیے تھے۔
واضح رہے کہ رواں سال 30 جنوری کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔