سندھ(اُمت نیوز)وزیراعظم شہباز شریف نے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے نئے چیئرمین کی تعیناتی پر سندھ کی جانب سے شدید ردعمل کے بعد فیصلہ واپس لینے پر آمادگی ظاہرکی ہے۔ وفاق نے ایک آرڈیننس کے ذریعے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کا ڈھانچہ بدلتے ہوئےچیئرمین ارسا کے لیے نیا عہدہ بناکر ریٹائرڈ سرکاری افسرظفرمحمود کو تعینات کیا جب کہ پہلے ارسا ممبران کو ہی باری باری چیئرمین بنایا جاتا تھا۔
وزیراعظم شہبازشریف نے سندھ کے خدشات پرنوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ سے رابطہ کرتے ہوئے چیئرمین ارساکی تعیناتی کا نوٹیفکیشن واپسی لینےکی یقین دہانی کروا دی۔
سندھ کی جانب سے ارسا چیئرمین کی تعیناتی مسترد کرتے ہوئے نوٹیفکیشن واپس لینے کا مطالبہ کرنے والے وزیر محکمہ آبپاشی سندھ جام خان شورو نے اس حوالے سے بتاتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نےوزیراعلیٰ سندھ کامؤقف مان لیاہے۔
جام خان شورو کے مطابق وزیراعظم نےظفرمحمود کی تعیناتی واپس لینےکا کہاہے۔ وزیراعلیٰ نے ان سے کہا تھا کہ معاملہ سی سی آئی میں طےہوچکا ہے اور تعیناتی روٹیشن کی بنیادپرصوبوں کےممبرسےہوگی۔
اس سے قبل اس تقرری کے حوالے سے ردعمل دیتے ہوئے وزیرمحکمہ آبپاشی سندھ جام خان شورو نے مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ چیئرمین ارسا کے تقرر پرتحفظات ہیں۔
وزیر آبپاشی سندھ کا کہنا تھا کہ ارسا چیئرمین کی تعیناتی واٹراکارڈ اورارسا ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، سندھ حکومت اس غیرقانونی تعیناتی کی مذمت کرتی ہے۔ارسا کا چیئرمین صوبوں کا ممبر یا وفاق کا نمائندہ ہوتاہے، کوئی غیر متعلقہ شخص چیئرمین ارسا نہیں بن سکتا۔
انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ باہر کے شخص کی بطور چیئرمین ارسا تعیناتی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نوٹیفکیشن واپس لیں۔
واضح ریے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ایک سابق وفاقی سیکرٹری کو انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کا چیئرمین مقرر کیا ہے۔
اس سے حکمران مسلم لیگ (ن) اور صدر آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی کے درمیان بھی دراڑ پیدا ہونے کا امکان ہے، کیونکہ نیا ڈھانچہ بظاہر ریگولیٹر کی آزاد حیثیت سے سمجھوتہ کرتا ہے۔
وزیر اعظم کے سیکرٹری اسد رحمان گیلانی کی طرف سے جاری کردہ حکم نامے میں کہا گیا کہ ، ’وزیراعظم گریڈ 22 کے ریٹائرڈ وفاقی حکومت کے افسر جناب ظفر محمود کو انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کا چیئرمین مقرر کرنے پرخوش ہیں۔‘
آبی وسائل کی وزارت اب اس سلسلے میں باضابطہ طور پر نوٹیفکیشن جاری کرے گی۔ تاہم اس معاملے پر مرکز اور صوبوں کے درمیان ٹھن جانے کا امکان ہے۔ پی پی پی رہنما کا دعویٰ ہے کہ صدر زرداری نے آرڈیننس کو دیکھا یا اس پر دستخط نہیں کیے ہیں۔
ظفر محمود کی تقرری متنازع ارسا ترمیمی آرڈیننس 2024 کے تحت کی گئی ہے جسے سابق صدرعارف علوی نے تحفظات کے ساتھ اس وقت کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو واپس کر دیا تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا یہ بات ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق وزارت آبی وسائل کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ صدر نے آرڈیننس کا مسودہ واپس کر دیا ہے لیکن یہ صرف ایوان صدر اور وزیر اعظم آفس کو معلوم ہے کہ آیا صدر نے آرڈیننس کو مسترد کر دیا ہے یا نظر ثانی کی تجویز دی ہے۔آئین کے آرٹیکل 48 میں وزیر اعظم (اس معاملے میں انوارالحق کاکڑ) کو مسودہ دوبارہ بھیجا گیا تھا، جو اگلے 10 دن مکمل ہونے پر قانون بن جائے گا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ارسا ترمیمی آرڈیننس 2024 اب [گزٹ آف پاکستان میں] چھاپا گیا ہے اور اسے مستقل ایکٹ بننے کے لئے پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا، کیونکہ آرڈیننس کی واضح طور پر محدود مدت ہے۔
پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے خبردار کیا کہ یہ نہ صرف آئینی دفعات کی نظر میں قابل اعتراض ہے بلکہ اس کے وفاقیت پر بھی اثرات مرتب ہوں گے، انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت پہلے ہی اس اقدام کو ’غیر قانونی‘ اور ارسا ایکٹ کے خلاف قرار دے چکی ہے۔
یہ آرڈیننس بظاہر ارسا کے اجتماعی اختیارات کو کم کرتا ہے ، جس میں 4 صوبائی اور ایک وفاقی رکن شامل ہیں۔ اب صوبوں کو ارسا کے چیئرمین کا عہدہ نہیں دیا جائے گا۔
اس وقت چیئرمین کا عہدہ صوبوں اور مرکز کے درمیان حروف تہجی کی ترتیب سے سالانہ بنیادوں پر منتقل کیا جاتا ہے۔ اب یہ باری باری نمائندگی وائس چیئرمین کے نو تشکیل شدہ عہدے کے لیے ہوگی جو براہ راست مقرر کردہ چیئرمین کے ماتحت کام کرے گا۔
نیا قانون چیئرمین کو بھاری اختیارات دیتا ہے۔ وہ آبپاشی کے نظام، صوبائی پانی کے حصص اور چارجز، فیس یا سیس وغیرہ عائد کرنے کے لئے مالی خودمختاری سے متعلق اہم فیصلہ سازی میں ”آزاد کنسلٹنٹس اور ماہرین“ کی اپنی ٹیم کی مدد سے ڈرائیونگ سیٹ پر ہوں گے۔