امریکا اور یورپ کے پالیسی ساز ادارے چین، روس اور ایران کے درمیان تیزی سے پنپتی ہوئی قربت سے پریشان ہیں۔ مختلف النوع اقتصادی پابندیوں نے تینوں ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کردیا۔ اسٹریٹجک اور اقتصادی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے نام پر امریکا اور یورپ نے بے عقلی پر مبنی اقدامات کے ذریعے اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارلی ہے۔
معروف برطانوی جریدے دی اکنامسٹ نے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ گزشتہ ہفتے ہونے والے روسی صدارتی انتخاب میں صدر ولادیمیر پوٹن کی مسلسل چھٹی فتح اُنہیں ایران اور چین سے زیادہ قریب کرے گی۔ انہوں نے مغرب کے کسی بھی دباؤ کو قبول کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے ایٹمی جنگ کی دھمکی دی ہے جو تیسری عالمی جنگ کہلائے گی۔
ایران نے ایک ڈیڑھ سال کے دوران روس سے اپنے تعلقات کو غیر معمولی وسعت دی ہے۔ گزشتہ دسمبر میں ایرانی صدر نے کریملن کا دورہ کرکے روسی ہم منصب سے وسیع البنیاد مذاکرات کیے تھے۔
چین کے صدر شی جن پنگ بھی معیشت کے مختلف شعبوں میں امریکا اور یورپ سے بڑھتی ہوئی مخاصمت کے باعث روس اور ایران سے مزید قربت اختیار کر رہے ہیں۔ یہ تینوں ملک کر ایسا سیاسی و معاشی اتحاد تشکیل دے سکتے ہیں جو امریکا اور یورپ کی معیشتوں کے لیے بقا کا سوال کھڑا کرسکتا ہے۔
دی اکنامسٹ مزید لکھتا ہے کہ 2020 میں امریکا نے خود کو 6 ملکی ایٹمی معاہدے سے الگ کرکے ایران پر نئی پابندیاں عائد کردی تھیں۔ یوکرین جنگ چھیڑنے کی پاداش میں روس پر بھی امریکا اور یورپ نے سیکڑوں اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں۔ اِس کے نتیجے میں روس اور ایران میں قربت مزید بڑھی ہے۔
اُدھر چین کے خلاف امریکا اور یورپ میں بڑھتی ہوئی مخاصمت بھی چینی قیادت کو متبادل راستوں پر چلنے کی تحریک دے رہی ہے۔ امریکا اور یورپ کے آٹو میکرز کو چین سے ڈر لگ رہا ہے۔ چین نے سستی الیکٹرک گاڑیاں تیار کرکے مغرب کے آٹو سیکٹر کے لیے خطرے کا گھنٹا بجادیا ہے۔
امریکا کے سابق صدر اور ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز کہا ہے کہ وہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں چینی ساختہ گاڑیوں پر 100 فیصد ڈیوٹی لگادیں گے تاکہ امریکا کے آٹو سیکٹر کو نئی زندگی مل سکے۔
ایسے ہی اقدامات کے بارے میں یورپ میں بھی سوچا جارہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو چین مزید اتحادی تلاش کرے گا تاکہ امریکا اور یورپ کو منہ توڑ جواب دیا جاسکے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چین انتہائی سستی جدید گاڑیاں تیار کرکے امریکا اور یورپ کی مارکیٹ میں کھلبلی مچاتا رہے۔
چین، روس اور ایران کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور تیزی سے پنپتے ہوئے اتحاد کو مزید ارکان بھی مل سکتے ہیں۔ ایسے میں امورِ خارجہ اور امورِ معیشت میں متوازن پالیسیاں تیار کرنا مغربی پالیسیی سازوں کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ محض ڈرانے دھمکانے کا زمانہ گیا۔ اب ترغیب و تحریک کی ضرورت ہے