فائل فوٹو
فائل فوٹو

پختونخوا اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر ارکان سے حلف لینے کا حکم

پشاور: ہائی کورٹ نے خیبر پختون خوا اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے ارکان سے حلف لینے کا حکم دے دیا۔

اپوزیشن جماعتوں کے مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان سے حلف لینے کے لیے دائر درخواستوں پر پشاور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا، جس میں عدالت نے حلف نہ لینے سے متعلق دائر درخواستیں منظور کرتے ہوئے مخصوس نشستوں پر منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی سے حلف لینے کا حکم دے دیا۔

قبل ازیں پیپلز پارٹی، ن لیگ اورجے یو آئی کی مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان سے حلف لینے کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت جسٹس ایس ایم عتیق شاہ اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل پشاور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے کی، جس میں جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے استفسار کیا کہ کیا اسپیکر حلف لینے سے انکار کررہے ہیں، جس پر اسپیکر کے وکیل علی عظیم آفریدی نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ گورنر اسمبلی سیشن سمن کر سکتا ہے یا نہیں، جس پر وکیل نے بتایا کہ آرٹیکل 109 میں گورنر کرسکتا ہے، اس کو 105 کے ساتھ پڑھا جائے گا۔ اگر گورنر ایسا کرے گا تو پھر تو وزیراعلیٰ بے اختیار ہوگا۔

اپوزیشن کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے عدالت میں کہا کہ ہائیکورٹ نے مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ سے متعلق فیصلہ بھی دیا۔ حلف نہ لینا لارجر بینچ کے اس فیصلے کی خلاف ورزی بھی ہے۔ اگر اسپیکر حلف نہیں لیتا تو گورنر بھی حلف لے سکتا ہے۔

جسٹس عتیق شاہ نے استفسار کیا کہ کیا ممبران کی حلف برداری ہاؤس میں ضروری نہیں؟ جس پر وکیل اپوزیشن نے جواب دیا کہ سینیٹ انتخابات کے لیے ممبران کو بلایا جائے تو بھی حلف برادری ہوسکتی ہے۔ گورنر کے پاس اجلاس بلانے کا اختیار ہے۔

جسٹس عتیق شاہ نے ریمارکس دیے کہ گورنر وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر اجلاس بلا سکتا ہے۔ لگتا ہے کسی نے تیاری نہیں کی، بس سب صرف عدالت آگئے ہیں۔ حلف برداری کے لیے اسمبلی سیشن کی ضرورت ہے یا نہیں؟، حلف اسمبلی اجلاس میں ہوگا یا چیمبر میں بھی ہوسکتا ہے؟آپ کہتے ہیں کہ اسمبلی سیشن کے بغیر ہوسکتا ہے، تو کیسے ہوگا؟۔

عدالت نے کہا کہ ممبران کا حلف اسمبلی اجلاس میں ہوتا ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سے حلف صدر اور گورنر لیتا ہے، ان کا حلف اسمبلی میں نہیں ہوتا۔ آپ لوگوں کو آئین سے کھلواڑ نہیں، آئین کی پاسداری کرنی چاہیے۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل اتمانخیل نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 65 کہتا ہےکہ جب ایک ممبر الیکٹ ہوتا ہے تو وہ حلف لے گا اور یہ تھرڈ شیڈول میں ہے کہ اسمبلی سیشن میں ہوگا۔ بلدوکمار اور اسپیکر اسد قیصر کیس میں پشاور ہائی کورٹ نے اس کو ڈیفائن کیا ہے۔

جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ ممبران کا نوٹیفکیشن ہوگیا ہے ان کا حق ہے کہ ان سے حلف لیا جائے۔ بات آئین اور قانون کی ہے۔ آرٹیکل 109 میں سبجیکٹ ٹو آئین کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ آپ کیسے آرٹیکل 109 کو آئین کے کسی اور آرٹیکل کے تناظر میں پڑھ سکتے ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ جب وزیر اعلیٰ موجود نہ ہو یا پھر اس کے خلاف عدم اعتماد ہو تو تب گورنر اجلاس آرٹیکل 109 کے تحت طلب کر سکتا ہے۔

جسٹس عتیق شاہ نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل صاحب کیسے آپ اس فیصلے پر انحصار کر رہے ہے جس کو سپریم کورٹ نے بیڈ لا کہا ہے؟۔ آپ کی ٹیم کیا کر رہی ہے، سوئی پڑی ہے؟ انہوں نے یہ تک نہیں دیکھا؟ کیسے آپ عدالت کو اس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں؟، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ میں نے جو کیس ریفرنس دیا اسے واپس لیتا ہوں۔

بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن کے مخصوص نشستوں کے ارکان اسمبلی سے حلف لینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا، جسے بعد میں جاری کرتے ہوئے عدالت عالیہ نے مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان سے حلف لینے کا حکم دیا۔