واشنگٹن(اُمت نیوز) وائٹ ہاؤس میں مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے دوران افطار ڈنر کا اہتمام کیا گیا تاہم صدر جوبائیڈن کی اسرائیل-غزہ جنگ کی پالیسی پر احتجاج کیا گیا اور مسلمان برادری کی تشویش اجاگر کی گئی۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر جوبائیڈن نے افطار ڈنر سے قبل اپنی انتظامیہ میں شامل سینئر مسلمان عہدیداروں کے ہمراہ مسلمان رہنماؤں سے ملاقات کی، جہاں خاتون اول جل بائیڈن، نائب صدر کاملا ہیرس اور ان کے شوہر بھی موجود تھے۔
سی این این کو دعوت میں شرکت کرنے والے ڈاکٹر ثائر احمد نے بتایا کہ انہوں نے ملاقات مکمل ہونے سے قبل ہی واک آؤٹ کیا تھا، ڈاکٹر ثائر احمد نے کم از کم 3 ہفتے غزہ میں گزارے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اپنی کمیونٹی، ظلم کے شکار افراد اور منظم انداز میں قتل کیے جانے والے افراد کے احترام میں مجھے اس دعوت سے واک آؤٹ کرنے کی ضرورت تھی۔
ثائر احمد نے کہا کہ وہ اس افطار میں واحد فلسطینی نژاد امریکی تھی اور بائیڈن کی طرف سے گرم جوشی نہیں تھی اور انہوں نے اتنا کہا کہ وہ جانتے ہیں اور میں واک آؤٹ کرکے باہر آگیا۔
خیال رہے کہ مذکورہ پروگرام جوبائیڈن کی جانب سے گزشتہ برس مئی میں عید کے موقع دیے گئے عشایے سے بالکل مختلف تھا جب وائٹ ہاؤس میں درجنوں شرکا نے بائیڈن کی تقریر پر تالیاں بجائی تھیں، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ آپ کا گھر ہے۔
اس پروگرام میں شرکت کرنے والے کانگریس کے مسلم اراکین میں الہان عمر اور رشیدہ طلیب بھی شامل تھیں، جو فلسطینی نژاد امریکی ہیں اور وہ اب بائیڈن کی غزہ پالیسی پر تنقید کرنے والی سرفہرست افراد میں شامل ہیں۔
امریکا میں مسلمانوں کے لیے کام کرنے والے گروپ کا کہنا تھا کہ بائیڈن کے اس پروگرام میں شرکت کم تھی اور اس کی وجہ بائیڈن کی جانب سے اسرائیل کو مسلسل غیرمشروط فوجی امداد جاری رکھنا قرار دیا۔
گروپ کا کہنا تھا کہ جوبائیڈن کے اسی تعاون کی وجہ سے غزہ میں انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے اور انسانی بحران جنم لے چکا ہے۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں 1200 اسرائیلی مارے گئے تھے جبکہ اسرائیل کی جانب سے شروع کی گئیں وحشیانہ کارروائیوں میں غزہ میں اب تک 32 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا ہے، ہزاروں زخمی اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے لیے پیش کی گئیں قراردادوں کو ویٹو بھی کیا اور ساتھ ہی اسرائیل کی فوجی امداد بھی جاری رکھی حالانکہ انسانی حقوق کے متعدد اداروں نے اسرائیلی کارروائیوں کو نسل کشی سے تعبیر کیا ہے۔