لندن: ایران کی طرف سے اسرائیل پر داغے جانے والے میزائل گرانے میں امریکا اور برطانیہ کے علاوہ اردن نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
امریکا اور برطانیہ نے ایرانی میزائلوں کو مار گرانے میں اپنے میکنزم کو بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی معاونت بھی کی جبکہ اردن نے اسرائیل کی معاونت کرنے کے بجائے یہ کام تنِ تنہا کیا۔
برطانوی اخبار گارجین نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ اردنی فضائیہ نے دریائے اردن کے مشرقی کنارے اور عراق و شام سے ملحق سرحدی علاقے سے گزرنے والے متعدد ایرانی میزائلوں کو جیٹ طیاروں کے ذریعے مار گرایا۔
دوسری طرف ایرانی وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران نے امریکا کو پہلے سے بتادیا تھا کہ وہ اسرائیل پر محدود پیمانے کا حملہ کرسکتا ہے۔ انڈیا ٹوڈے کے مطابق حسین امیر عبداللہیان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایرانی حکومت نے امریکا باضابطہ طور پر بتادیا تھا کہ اسرائیل پر حملہ محدود پیمانے کا اور خالص دفاعی نوعیت کا ہوگا۔
حملہ ناکام بنانے میں مدد پر ایران نے 3 ممالک کے سفیر طلب کرلیے
ایران کی وزارت خارجہ نے اتوار کو اسرائیل پر حملہ ناکام بنانے میں مدد کرنے پر برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے سفیروں کو طلب کرلیا۔
ایرانی خبر رساں ایجنسی ”تسنیم“ کے مطابق ایران نے سفراء سے اسرائیل پر تہران کے جوابی حملوں کے حوالے سے ان کے ممالک کے”غیر ذمے دارانہ مؤقف“ کے بارے میں سوال کیا۔
مذکورہ تین یورپی ممالک نے اسرائیل کے خلاف ایران کے ڈرون اور میزائل حملوں کی مذمت کی تھی، یہ حملے ہفتے کی رات سے اتوار تک چلے، جو کہ یکم اپریل کو شام میں اسرائیل کی جانب سے اس کے قونصل خانے پر بمباری کا بدلہ تھے۔
ایران کی وزارت خارجہ میں مغربی یورپ کے ڈائریکٹر نے تینوں ممالک پر ”دوہرے معیار“ الزام لگایا کیونکہ کہ انہوں نے اس ماہ کے شروع میں روس کے تیار کردہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک بیان کی مخالفت کی تھی جس میں شام میں ایران کے سفارت خانے کے احاطے پر اسرائیل کے حملے کی مذمت کی گئی تھی۔