اسلام آباد: ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان پر دونوں ملکوں نے 28 نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دونو ں ممالک کے درمیان بجلی کی ترسیل اور آئی پی گیس پائپ لائن پروجیکٹ باہمی تجارت کو اگلے پانچ سالوں میں 10 بلین امریکی ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا۔
اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف کی دعوت پر ایرانی صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے 22 سے 24 اپریل 2024 تک پاکستان کا سرکاری دورہ کیا۔
اعلامیے کے مطابق ایران کے صدر کے ہمراہ ایک اعلیٰ سطح کا وفد بھی تھا جس میں ایران کے وزیر خارجہ بھی شامل تھے صدر رئیسی نے وزیراعظم محمد شہباز شریف سے وفود کی سطح پر بات چیت کی۔
اعلامیے کے مطابق فریقین نے پاکستان ایران دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلووٴں کا جائزہ لیا علاقائی اور عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ دورے کے دوران متعدد مفاہمت اورمعاہدوں پر بھی دستخط کیے گئے۔
اعلامیے کے مطابق دونوں فریقین نے برادرانہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے اعلیٰ سطح کے دوروں کے باقاعدہ تبادلے کے ذریعے باہمی روابط کو بڑھانے پر اتفاق کیا۔
اعلامیے کے مطابق دونوں پڑوسیوں اور مسلم ممالک کے درمیان تاریخی، ثقافتی، مذہبی اور تہذیبی تعلقات کو اجاگر کیاگیا۔دونوں فریقوں نے علمی،ثقافتی اور سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ کے ذریعے ان تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے اپنے عزم اور لگن کا اعادہ کیا۔ فریقین نے تسلیم کیا کہ پاکستان ایران مشترکہ سرحد ‘امن اور دوستی کی سرحد’ ہونی چاہیے۔
مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ فریقین نے خطرات سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کے سیاسی، فوجی اور سیکیورٹی حکام کے درمیان باقاعدہ تعاون کا اعادہ کیا فریقین نے تجارتی اور اقتصادی تعاون کو مزید وسعت دینے پر اتفاق کیا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ سرحدی منڈیوں کے قیام سمیت مشترکہ ترقی پر مبنی اقتصادی منصوبوں کے ذریعے اپنی مشترکہ سرحد کو ‘امن کی سرحد’ سے ‘خوشحالی کی سرحد’ میں تبدیل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ توانائی کے شعبے میں تعاون کی اہمیت کا اعادہ کیا گیاجس میں بجلی کی تجارت، بجلی کی ترسیل اور آئی پی گیس پائپ لائن پروجیکٹ شامل ہیں۔
مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں رہنماوٴں نے اپنی باہمی تجارت کو اگلے پانچ سالوں میں 10 بلین امریکی ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا۔دونوں فریقوں نے ایک طویل مدتی پائیدار اقتصادی شراکت داری اور باہمی تعاون پر مبنی علاقائی اقتصادی اور روابط کے ماڈل کی ضرورت پر زور دیا۔