ٹرانسفارم پاکستان مہم تعلیمی اداروں میں معیاری غذاکی فراہمی کیلئےپرعزم

ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں دستیاب غذائی اشیا کی کوالٹی سے متعلق تحقیقی مہم میں پاکستان کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے کراچی یونیورسٹی، جس میں مختلف علاقوں اور رہن سہن سے تعلق رکھنے والے 45,000 طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں میں فوڈ ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ایک تحقیق کی گئی۔ ، اس تحقیق میں کیمپس میں عام طور پر استعمال کی جانے والی کھانے کی مصنوعات میں ٹرانس فیٹس کی موجودگی کے لیول کا اندازا لگایا گیا ۔ ٹرانسفارم پاکستان مہم کے تحت پاکستان یوتھ چینج ایڈووکیٹ (پی وائی سی اے) کے زیر اہتمام اس تحقیق کا مقصد ٹرانس فیٹ کے استعمال سے صحت کو ہونے والے نقصانات اور ان کے خطرات میں کمی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ کھانے کے معیار اور حفاظتی اقدامات کو بہتر بنانے کے لیے ریگولیٹری اقدامات سے متعلق معلومات کوعام کرنا بھی ہے۔

اس تحقیق میں جامعہ کراچی کے احاطے میں فروخت کی جانے والی مختلف کھانے کی اشیاء کی غذائیت اور کوالٹی کا جائزہ لینے پر توجہ مرکوز کی گئی، جس میں ٹرانس فیٹ مواد پر خاص زور دیا گیا۔ نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پراٹھا، جو طلباء عام طور پر کھاتے ہیں، اس میں ٹرانس فیٹ کی مقدار ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کی مقرر کردہ حد (جو کہ ۲ فیصد ہے ) سے زیادہ ہے۔ یہ صحت عامہ کے لیے ایک اہم تشویش کا باعث بنتا ہے، کیونکہ ضرورت سے زیادہ ٹرانس فیٹ کا استعمال مختلف دائمی بیماریوں کا سبب بنتا ہے، جن میں قلبی امراض، ذیابیطس، الزائمر اور کینسر شامل ہیں۔

اس تحقیق کے سربراہ محقق پرکاش میگھوار نے اس مسئلے کو حل کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ کیمپس میں پراٹھے جیسی عام طور پر کھائی جانے والی کھانے کی مصنوعات میں ٹرانس فیٹس کی اعلیٰ سطح کی موجودگی صحت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ طلباء کے کھانے کی اشیاء میں ٹرانس فیٹ کے مواد کو منظم کرنے اور صحت مند متبادل کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔

پی وائی سی اے کی پروگرام امپلیمینٹیشن لیڈ ہما جہانگیر نے کہا، کراچی یونیورسٹی میں کی گئی یہ تحقیق اس بات کی ایک مثال ہے کہ نوجوان کس طرح ٹرانسفارم پاکستان مہم کو اہمیت دے رہے ہیں اور صنعتی طور پر پیدا ہونے والے ٹرانس فیٹ یعنی چکنائی کو ریگولیٹ کرنے کی فوری ضرورت پر زور دے رہے ہیں کہ پاکستان بھر میں تمام کھانوں میں ٹرانس فیٹ چکنائی کل چکنائی کے 2 فیصد سے بھی کم ہو۔

ڈاکٹر ایس ایم غفران، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، جامعہ کراچی نے صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، "تحقیق کے نتائج کی بنیاد پر، ہمارے غذائی ذرائع میں ٹرانس فیٹس کی موجودگی کو محدود کرنے اور اس کے استعمال کو روکنے کے لیے ضوابط کو نافذ کرنا نہایت ضروری ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پارشلی ہائیڈروجنیٹڈ ویجیٹبل تیل، جو کہ ٹرانس فیٹ کا ایک بڑا ذریعہ ہے، کے استعمال کی روک تھام پاکستان میں صحت عامہ کے تحفظ کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ نوجوانوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ڈاکٹر غفران نے مزید کہا، "یہ قابل تعریف ہے کہ پی وائی سی اے تعلیمی اداروں میں ٹرانس فیٹ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کام کر رہا ہے، یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس پر ماضی میں خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ یہ واضح ہے کہ ٹرانس فیٹ نہ صرف بزرگوں بلکہ ہمارے نوجوانوں کے لیے بھی صحت کے لیے ایک اہم خطرہ ہے۔ پچھلی چند دہائیوں کے دوران، نوجوانوں میں موٹاپا، قلبی امراض، اور ہائی بلڈ پریشر سمیت کئی دائمی بیماریاں تیزی سے دیکھی گئی ہیں۔ اس لیے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں میں اس مسئلے کے حل کے لیے بروقت اقدام کرنا فائدہ مند ثابت ہوگا۔

پی وائی سی اے، ٹرانسفارم پاکستان مہم کے تحت اس تحقیق کے سپانسر کے طور پر ، غذائی ذرائع میں صنعتی طور پر تیار کردہ ٹرانس فیٹی ایسڈز کے نقصانات کے حوالے سے آگہی پھیلانے میں ملک بھر کے میڈیا اور نوجوانوں کے کردار کو موثر بنانے کے حوالے سے کام کر رہا ہے ۔ باہمی کوششوں کے ذریعے، پالیسی ساز، صحت کے پیشہ ور ماہرین، اور صارفین ٹرانس فیٹ کے استعمال سے منسلک صحت کے خطرات کو کم کرنے اور خوراک کی فراہمی کے مجموعی معیار کو بہتر بنانے کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں۔