اسلام آباد(اُمت نیوز)سپریم کورٹ کے سنئیر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ عدالتیں آزاد اور خود مختار ہونی چاہیئں۔ سسٹم کے تابع ہونے تک آگے نہیں بڑھ سکتے۔ادارے کو چلانے کیلئے انفرادی سوچ چھوڑنا پڑے گی۔ماضی میں کچھ ایسے فیصلے ہوئے جو اچھے نہیں تھے ۔ ماتحت عدلیہ میں مافیاز بھی کام کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے سنئیر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے فلیٹیز ہوٹل میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا یہاں عدالتی فیصلوں کی حمایت میں بات کرنے نہیں آیا،ماضی میں کچھ ایسے فیصلے ہوئے جو اچھے نہیں تھے ،آپ کو فیصلوں پر تنقید کا مکمل اختیار ہے،یہ وقت ہے کہ ہم اپنے گھر کو درست کریں، ایسا جوڈیشل سسٹم بنائیں جو مضبوط ہو ، آئینی تقاضا ہے عدلیہ مکمل خود مختار ہونی چاہئے،،،جب تک انفرادیت سے نکل کر سسٹم کی طرف نہیں آتے، جب تک ہم ایک سسٹم کے تابع نہیں ہوں گے ہم ترقی نہیں کر سکتے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ادارے کو چلانے کی انفرادی سوچ ہمیں چھوڑنا پڑے گی ،ججوں کی تقرری کے طریقہ کار کو بہتر کر رہے ہیں ،ہماری عدلیہ میں کچھ ججز آئے جنہیں چائنہ بیج بھی کہا جاتا ہے
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی میٹنگ میں ججوں کی تقرری میں عوامی شنوائی کو لایا جا سکتا ہے،فلاں کا بیٹا، فلاں کا بیٹا ہم نے جج نہیں بننا، جو جج کام نہیں کر رہا اسے نکال باہر کرنے کی سوچ ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کرپشن اور نااہلی کو برداشت نہیں کر سکتا،کرپشن اور نااہلی پر زیرو ٹالرنس ہونی چاہئے،کیس فکس کرنے کیلئے شفاف سسٹم ہونا چاہئے جس کیلئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ انتہائی اہم ہے،چیف جسٹس پاکستان کو سراہتا ہوں جنہوں نے اپنے اختیار کو کم کیا،ماضی میں کسی نے ایڈونچرازم بھی کیا مگر اب کوئی انفرادی طور کیس فکس نہیں کر سکتا،ہماری ماتحت عدلیہ میں مافیاز بھی کام کر رہے ہیں،80 فیصد کیسز ضلعی عدلیہ میں زیر التواء ہیں اصل مسئلہ وہاں ہے،دنیا میں مصالحت کا نظام چل رہا ہے
،پاکستان کے 138 اضلاع میں مصالحتی سنٹرز بن جائیں گے،پنجاب میں جب مصالحتی نظام کو شروع کیا تھا بڑے اچھے نتائج آئے،وکلاء کو مصالحتی نظام سے ڈرنا نہیں چاہئے، روزانہ کا ایک کیس کا فیصلہ کروائیں اور نیا کیس پکڑیں ،ضلعی عدالتوں میں روزانہ کا 70 ہزار مقدمہ دائر ہو رہا ہے،اگر ہم اپنے معاملات کو حل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں 21 ہزار جج چاہئے ،برازیل میں سب سے بڑا بجٹ کا حصہ عدلیہ کو دیا جاتا ہے دوسرے نمبر پر فوج ہے ،وکلاء کی طرف سے التواء کی درخواستیں آتی ہیں ،ساری دنیا میں جھوٹا مقدمہ کرنے پر جرمانے ہوتے ہیں مگر یہاں بار کو برا لگنے لگ جاتا ہے،پاکستان میں جھوٹے مقدمات پر جرمانے ہونے چاہئیں ،ترکی میں کوئی مسئلہ ہو اور گوجرانولہ میں ہڑتال ہو جاتی ہے،کرکٹ میچ ہار جائیں تو ہڑتال ہو جاتی ہے نظام ایسے نہیں چلے گا ،لوگ اپنے جانور تک بیچ کر عدالتوں میں کیس کرتے ہیں،آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ ایک سماعت پر کتنا خرچ آتا ہے،حکم امتناعی کا کلچر نہیں چلے گا ،لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے ثالثی قانون بنا لیا ہے،یہ ثالثی قانون کے ذریعے ہم بین الاقوامی کیسز میں فائدہ حاصل کر سکتے ہیں،دنیا بھر میں کمرشل کورٹس موجود ہیں، یہاں کمرشل کوریڈور بنے گا ،یہ تمام چیزیں نئی نہیں ہیں بلکہ دنیا بھر میں یہ سب ہو رہا ہے،خواتین عدالتی نظام میں نظر نہیں آ رہیں، ایک خاتون کیس کو بہت مختلف انداز میں دیکھتی ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے ،خواتین کی عدالتوں میں موجودگی عدالتی فیصلوں کو مضبوط کرے گی ،تربیت کے بغیر ہم ناکارہ ہو جاتے ہیں، ججوں کی تربیت کروائی جا رہی ہے
،پیرا لیگل سٹاف کو یہ تک نہیں پتہ کہ فائلیں کیسے بنانی ہیں انہوں کبھی جوڈیشل اکیڈمی تک نہیں دیکھی ،عدلیہ کے معاملات میں کوئی بیرونی مداخلت نہیں ہونی چاہئے،تمام ادارے تسلیم کر لیں کہ اگر نظام انصاف نہیں ہو گا تو کچھ بھی نہیں ہو گا،چھوڑ دیں، پتہ نہیں کیوں نہیں انہیں سمجھ آ رہی، نظام انصاف کو مضبوط کریں، جسٹس سید منصور علی شاہ نے اپنے خطاب کے دوران شعر بھی پڑھا کہ ،مٹ جائے گی مخلوق خدا تب انصاف کر وگے؟منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے؟ جسٹس سید منصور علی شاہ کے خطاب کے دوران شرکا انہیں بھرپور داد دیتے رہے۔