اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو سپریم کورٹ کے 2021 کے فیصلے پر عملدرآمد کی ہدایت کرتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں پر سیاستدانوں کی تختیاں لگانے پر ایک بار پھر پابندی عائد کردی ہے۔
سپریم کورٹ نے 2 ہفتے میں وفاقی و صوبائی حکومتوں سے عملدرآمد رپورٹ طلب کرلی،خیبرپختونخوا حکومت سے ترقیاتی فنڈز آئین اور قانون کے مطابق خرچ کرنے پر بھی رپورٹ طلب کی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اپنی جیب سے ترقیاتی کام کروائیں تو پھر اپنے نام کی تختی لگا لیں۔ سپریم کورٹ نے احکامات جاری کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پاکستان جمہوری ملک ہے کوئی بادشاہت نہیں، پاکستان میں عوام کسی حکمران کی رعایا نہیں، کیا عوام کا پیسہ آئین اور قانون کے برخلاف خرچ کیا جا سکتا ہے؟
عدالت نے خیبرپختونخوا میں سرکاری فنڈز کی تقسیم کے حوالے سے چیف سیکرٹری کو عملدرآمد رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اس موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ذاتی تشہیر اور ترقیاتی فنڈز کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہیں، غریب عوام نے آخر حکومتوں کا بگاڑا کیا ہے؟
مقابلہ کرنا ہے تو اس بات پر کریں کہ کس سیاستدان نے کتنا انکم ٹیکس دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کیا آئین اجازت دیتا ہے کہ اسمبلی کی منظوری کے بغیر پیسہ خرچ کیا جا سکے؟ ممبران اسمبلی کیوں جاتے ہیں اور الیکشن کیوں لڑتے ہیں؟ اسمبلی جانے کا بنیادی مقصد قانون سازی اور فنڈز خرچ کرنے کی اجازت لینا ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسمبلی سے کیوں ڈرتے ہیں؟ فنڈز خرچ کرنے ہیں تو اسمبلی سے منظوری لیں، لوگوں کو بھی علم ہو کہ پیسہ کہاں خرچ ہو رہا ہے۔ آخر کب پاکستان کو درست سمت میں چلائیں گے؟
ارکان اسمبلی نے لینڈ کروزر لینی ہو تو فوری پیسے نکل آتے ہیں، لینڈ کروزر خریدنے کے لیے اسمبلی سے منظوری لیں، کیوں سیاستدانوں کے نام پر اسکیمیں بنائی جاتی ہیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ جنہوں نے پاکستان بنایا ان کی قدر نہیں کرتے، کسی نے کچھ کرنا ہے تو اپنی جیب سے کرے، امریکا میں تعلیمی ادارے لوگوں نے اپنی جیب سے بنائے ہیں، آزادی کا مطلب ہے آزاد لوگ، ایک کی غلامی چھوڑ کر دوسرے کی نہیں پکڑنی، اپنی جیب سے پیسے خرچ کرکے کام کروائیں تو اپنی تختی ضرور لگائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ چائنہ میں وزیر سے ارکان اسمبلی تک سب سائیکل پر جاتے ہیں ہم لینڈ کروزر خریدنے میں لگے ہوئے، جو کام پرویز الہی کے دور میں ہو رہا تھا پنجاب میں اب بھی وہی کام ہو رہا ہے۔
منصوبوں پر فیتا کاٹ کر کریڈٹ کیوں لیا جاتا ہے؟ تختیاں آزادی کے لیے لڑنے والوں کے نام کی لگائیں۔چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ پنجاب میں کتنے سرکاری وکلا ہیں؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ اس وقت 86 لا افسران ہیں ان کی تعداد کم کرکے 66 کی جا رہی ہے۔