اسلام آباد: سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس میں عمران خان کو بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہونے کی اجازت دے دی۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت ہوئی۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب اور وکیل پنجاب حکومت دونوں نے کہا کہ اس کیس میں ہم وفاقی حکومت کے دلائل کو ہی اپنائیں گے۔
ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخواہ نے کہا کہ ہم نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ نیب کی پولیٹیکل انجئیرنگ میں ملوث ہونے سے متعلق ہے، عمران خان نے عدالت میں ذاتی حیثیت میں پیشی کی درخواست کی ہے، اگر وہ بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہونا چاہیں تو ہو سکتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ عمران خان اگر دلائل دینا چاہیں تو ویڈیو لنک کے زریعے دلائل دے سکتے ہیں، پرسوں تک ویڈیو لنک کے زریعے دلائل دینے کا بندوبست کیا جائے، عمران خان کی درخواست منظور کرتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے جب نیب ترامیم کے آرڈیننس آئے اس وقت کی حکومت اور عمران خان نے ان ترامیم کو سپورٹ کیا، اس وقت کہا گیا کہ نیب کی وجہ سے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں، معیشت متاثر ہو رہی ہے، پارلیمنٹ کی نیب قانون میں کی گئی ترامیم پی ٹی آئی دور کے آرڈیننس اور عدالتی فیصلوں کی روشنی میں کی گئیں، پارلیمنٹ کی ترامیم کا مقصد ان افراد کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا تھا جن پر نیب کے لگائے گئے الزامات غلط ثابت ہوئے، نیب کرپشن کی روک تھام کرنے میں ناکام رہا ہے، نیب پولیٹیکل انجینئیرنگ میں ملوث رہا ، اگر کوئی بے قصور ثابت ہو تو کیا نیب کے خلاف کاروائی بھی ہو سکتی ہے؟ نیب کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے سب قوانین کو دھندلا کر دیا؟ مارشل لا لگتا ہے ، نیب قانون فوری بن جاتا ہے، اگر کوئی جمہوری حکومت قانون بنائے تو مسائل شروع ہو جاتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو سے تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت 16مئی تک ملتوی کردی۔