اسلام آباد ( اُمت نیوز) عالمی سطح کے ایک تفتیشی صحافت کے پروجیکٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ دنیا بھرکی اشرافیہ کی دبئی میں املاک موجود ہیں۔
اس فہرست میں سیاسی شخصیات، بین الاقوامی پابندیوں کے شکار افراد، کالا دھن سفید کرنے والے اور مجرم شامل ہیں۔ اس فہرست میں پاکستانیوں کی نشاندہی بھی ہوئی ہے اور ان کی مجموعی دولت کا تخمینہ 11 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔صدرزرداری اور ان کےتین بچے، پرویز مشرف ، حسین نواز، فرح گوگی، ،شوکت عزیز، شیر افضل مروت، محسن نقوی کی اہلیہ، شرجیل میمن اور درجن بھر سابق جرنیل اس فہرست میں شامل ہیں۔
جنرل باجوہ کے بیٹے نے اپنے فلیٹ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ا س نے یہ اپارٹمنٹ بھائی سے خریدا، ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کیا ہے۔
پروجیکٹ ’’ دبئی ان لاکڈ ‘‘ ڈیٹا کی بنیاد پر کام کرنے والا ایک گروپ ہے اور اس نے دبئی میں موجود لاکھوں املاک اور ان کے مالکان یا استعمال کے حوالے سے اطلاعات اور تفصیلی جائزہ فراہم کیا ہے اور یہ جائزہ زیادہ تر 2020 سے 2022 تک کا ہے۔
17 ہزار پاکستانی 23 ہزار رہائشی املاک کے ساتھ دوسرے نمبر پر ، پہلے نمبر پربھارتی اور تیسرے نمبر پر برطانوی شہری شامل ہیں۔
مختلف کمپنیوں کے نام پر خریدی گئی املاک اور تجارتی علاقوں میں املاک اس تجزیے کا حصہ نہیں ہیں۔
یہ ڈیٹا سنٹر برائے ایڈوانسڈ ڈیفنس اسٹڈیز نے واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک نان پرافٹ تنظیم (C4ADS) سے حاصل کیا ہے۔ پھر یہ ڈیٹا ایک نارویجین مالیاتی آؤٹ لیٹ (E24) اور منظم جرائم اور کرپشن کی رپورٹنگ کے پروجیکٹ (OCCRP) کے ساتھ شیئر کیا گیا ۔
ان اداروں نے 6 ماہ تک اس تفتیشی پراجیکٹ پر آپس میں رابطہ کاری کی اور اس مقصد کےلیے 58 ممالک کے 74 میڈیا آؤٹ لیٹس سے رپورٹر زلیے گئے، اس میں بہت سے سزایافتہ مجرموں ، مفروربھگوڑوں اور سیاسی شخصیات کو بے نقاب کیا گیا جن کے پاس دبئی میں کم از کم ایک قطعہ زمین موجود ہو۔ دی نیوز اور ڈان اخبار پاکستان سے اس پروجیکٹ میں پارٹنر تھے۔
ان پراپرٹی لیکس میں جن پاکستانیوں کا تذکرہ ہے ان میں صدرپاکستان آصف علی زرداری ، ان کے تینوں بچے، حسین نوازشریف، وزیرداخلہ محسن نقوی کی اہلیہ، شرجیل میمن اوران کے اہل خانہ ، سینیٹر فیصل واڈا، فرح گوگی،شیرافضل مروت، چار ارکان قومی اسمبلی اور سندھ و بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں کے نصف درجن ارکان شامل ہیں۔
پاکستانی فہرست میں جنرل پرویز مشرف، سابق وزیراعظم شوکت عزیز اور ایک درجن سے زئاد ریٹائرڈ جرنیلوں اور پولیس کے سربراہوں ، ایک سفیر اور ایک سائنسدان بھی شامل ہیں۔ ان سب کے پاس ان املاک کی ملکیت براہ راست ہے یا شریک حیات اور بچوں کے توسط سے ہے۔
2014 میں صدر آصف علی زرداری نے غیر ملکی املاک ایک تحفے کے طور پر حاصل کیں۔ 2018 میں انہوں نے اسے ظاہر کیاتو اس وقت تک وہ اسے کسی کو تحفتاً دے چکے تھے۔
2014 میں ہی زرداری کے ساتھ جعلی کھاتوں کے الزام میں شریک ملزم ایک بڑے تاجر عبدالغنی مجید نے اپنی دولت کی دستاویز میں بتایا کہ انہوں نے 32کروڑ90 لاکھ روپے کی ایک جائیداد تحفے میں دی ہے لیکن انہوں نے نہ تو جائیداد کی نوعیت بتائی اور نہ ہی یہ بتایا کہ تحفہ حاصل کرنے والا کون تھا تاہم جے آئی ٹی کو ایک یاداشت مل گئی جو کہ مارچ 2014 میں دبئی میں ایک پینٹ ہاؤس کی خریداری سے متعلق تھا۔
پراپرٹی لیکس کے ڈیٹا سے اب انکشاف ہوتا ہے کہ غنی نے یہ جائیداد زرداری کو تحفتاً دیاتھا جو انہوں نے اپنی بیٹی کو تحفتاً دے دیا۔ اومنی گروپ کے چیف فنانشل آفیسر اسلم مسعود ببھی اس فہرست میں اپنی متعدد املاک کے ساتھ اس فہرست میں موجود ہیں۔
دی نیوز نے ان کی قدر کا پتہ چلایا ہے اورمارچ 2013 میں انکی مالیت 8 کروڑ کی مالیت سے خریدی گئی تھیں۔ شعیب ڈنشا بھی دبئی میں ایک جائیداد کے مالک ہیں انہوں نے 2015 میں ایک ولا 9 کروڑ60 لاکھ پاکستانی روپے میں خریدا تھا۔ ان سب ہی افراد کو سوالنامے بھجوائے گئے (سوائے اسلم مسعود کوجو کہ انتقال کر چکے ہیں) تاہم کسی نے جواب نہیں دیا۔الطاف خانانی نیٹ ورک جس پر امریکا نے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کر رکھی ہے ان کا نام پھر اس فہرست کے ذریعے ابھر کر سامنے آیا ہے۔
ان کا بیٹا، ، بیٹی، بھائی اور بھتیجا بھی دبئی میں کئی کئی املاک کےمالک نکلے ہیں۔
ان میں سے تین تو پابندیوں کا شکار ہیں۔ ایک اور قابل زکر کردار حامد مختار شاہ ہیں جو کہ راولپنڈی کے فزیشن ہیں ان پر بھی امریکا نے پاکستانی مزدوروں کے گردے نکال کربیچنے کیلیے انہیں اغوا کرنے ، اپنی تحویل میں رکھنے اور بالآخر گردے نکالنے میں ملوث ہونے پر پابندی لگارکھی ہے۔ وہ کئی املاک کے مالک ہیں۔
پراپرٹی لیکس نے وزیرداخلہ محسن نقوی کی دبئی میں املاک کا انکشاف بھی کیا ہے جو انہوں نے رواں برس مارچ میں سینیٹ کے انتخاب کےلیےاپنے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیں ۔
پراپرٹی لیکس کے ڈیٹا کے مطابق نقوی کی بیوی کا پانچ خوابگاہوں کا ایک پرتعیش ولا عریبین رینچز میں 2023 تک موجو د تھا۔ انہوں نے اس ولا سے 4 کروڑ 50 لاکھ روپے کا کرایہ بھی حاصل کیا۔ یہ ولا اپریل 2023 تک ان کی ملکیت میں رہا جسے اگست 2017 میں 32 کروڑ 90 لاکھ روپے میں خریدا تھا اور اریکارڈ کے مطابق 34 کروڑ 40 لاکھ روپے میں اپریل 2023 میں بیچ دیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود وہ دبئی میں ایک جائیداد کی مالک ہیں ۔
میڈیا پارٹنرکی جانب سے اس تفتیشی پروجیکٹ کے حوالے سے بھجوائے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے وضاحت کی کہ انہوں نے رواں برس جنوری میںایک نئی جائیداد دبئی میں خریدی ، یہ وہ وقت ہے جب محسن نقوی پنجاب کی عبوری وزارت اعلیٰ پر متمکن تھے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کےلیے موجودہ سال کے ٹیکس ڈکلریشن میں اس جائیداد کا اظہار کرنے والے ہیں۔
منگل کو وزیرداخلہ محسن نقوی نے ایک ٹوئیٹ میں واضح کیا کہ ’’ دبئی کی جائیداد 2017 سے میری بیوی کے نام پر ہے اور ٹیکس ریٹرن میں موجود ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ پنجاب کے عبوری وزیرااعلیٰ کی حیثیت سے انہوں نے الیکشن کمیشن میں جو ریٹرن جمع کرائے تھے اس میں بھی ان کا تذکرہ تھا۔ یہ جائیداد ایک سال پہلے فروخت کردی گئی تھی اور نئی حال ہی میں خریدی گئی ہے۔‘‘
پراجیکٹ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے بیٹے سعد صدیقی باجوہ کا بھی دبئی کے انتہائی مہنگے علاقے میں دوبیڈروم کا اپارٹمنٹ 2020 سے موجود ہے۔
لیک ہونے والے ڈیٹا سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ جائیداد 18 فروری 2020 کو ابتدائی طور پر 2.35 ملین اماراتی درہم میں خریدی گئی تھی۔ بعد میں 27 دسمبر 2020 کو یہ فروخت کر دی گئی۔
لیک ہونے والے ڈیٹا کے مطابق اس پراپرٹی کی قیمت 1.75 ملین اماراتی درہم ظاہر کی گئی ہے۔
سعد صدیق باجوہ نے یہ املاک ایک سرمایہ کار کمپنی سے خریدی لیکن بعد میں اپنے چھوٹے بھائی علی اقبال باجوہ کے نام کر دیا جو کہ اس پراپرٹی کا موجودہ مالک ہے۔
دی نیوز نے جب سعد صدیق باجوہ سے رابطہ کیا تو اس نے تصدیق کی کہ اس نے یہ پراپرٹی خریدی تھی لیکن بعد میں اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو فروخت کر دی ۔
دی نیوز نے جب اس حوالے سے علی اقبال باجوہ سے رابطہ کیا اور اسے سوالنامہ بھجوایا کہ اس نے یہ جائیداد کیسے خریدی ، اس کی آمدن کا ذریعہ کیا ہے اور کیا اس نے یہ رقم قانونی طریقے سے بینکوں کے راستے سے بھجوائی اور کیا اس نے ٹیکس اتھارٹیز کے سامنے اسے ظاہر کیا ہے ؟ تو اس نے اپنے تفصیلی جواب میں مورٹگیج کے معاہدے، ادائیکی کی رسیدیں جو اسے اپنے باپ سے ملیں، بینک اسٹیٹمنٹ (جس میں وہ قرض تھا جو اس نے دبئی میں ایک بینک سے لیاتھا ) کی نقول موجود تھیں۔ یہاں اس کا وہ تفصیلی بیان موجود ہے جو اس نے دی نیوز کو بھجوایا ہے۔ ’’ میں علی اقبال باجوہ بلڈنگ فائیو سٹی واک دبئی کے اپارٹمنٹ کا مالک ہوں۔ اپارٹمنٹ فی الوقت دبئی اسلامک بینک کے پاس گروی ہے۔ یہ اپارٹمنٹ ابتدائی طور پر مشرق بینک دبئی کے ذریعے ایک گروی شدہ جائیداد میرے بھائی سعد صدیق باجوہ نے فروری 2020 میں خریدی تھی۔ دسمبر 2020 میں پارٹمنٹ مجھے منتقل کر دیا گیا اور اس وقت سے اس کا قبضہ میرے پاس ہے۔‘‘
اس سوال پر کہ آیا یہ املاک پاکستان میں ٹیکس حکام کے سامنے ظاہر کی گئی ہیں یا نہیں ؟ باجوہ کا جواب تھا کہ ’’ اپارٹمنٹ میرے بھائی کے ٹیکس ریٹرن 2019-20 میں تو ظاہر کیا گیا تھا اور تب سے چونکہ یہ جائیداد 2020 کے وسط میں میرے نام پر منتقل ہوگئی تھی تو میں 2020-21 کے بعد سے جائز طور پر اپنے ٹیکس ریٹرن میں اسے ظاہر کر رہا ہوں۔ اس اپارٹمنٹ کے بارے میں مفروضہ یہ ہے کہ یہ دسمبر 2019 میں خریدا گیا کیونکہ جنوری 2020 میں مجھے دبئی میں نئی نوکری شروع کرنا تھی۔
چنانچہ فنڈز پاکستان سے بینک کے ذریعے امارات میں میرے بینک اکاؤنٹ میں بھیجے گئے۔ میری ملازمت مارچ 2020 تک موخر ہوگئی ۔ چنانچہ میں نے فنذز اپنے اکاؤنٹ سے اپنے بھائی کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیے اور اپارٹمنٹ خریدا۔ بعد میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس اپارٹمنٹکو اپنے پاس نہیں رکھیں گے کیونکہ ماہانہ مارٹگیج کی رقم بہت زیادہ تھی۔ میں نے اسے ( اپنے بھائی ) کو پیشکش کی کہ میں اس سے یہ خرید لیتا ہوں اور مارٹگیج لوٹا کر دسمبر 2020 میں اپارٹمنٹ خرید لیا۔میں اکتوبر 2017 سے یواے ای میں کام کر رہا ہوں۔ ابتائی طور پر میں ابو ظہبی کی تیل کمپنی میں ملازم تھا اور یہ ملازمت اکتوبر 2017 سےاکتوبر 2019 تک جاری رہی ۔ اس کے بعد میں نے ایک عالمی مینجمنٹ کنسلٹنٹ کمپنی کے ساتھ مارچ 2020 میں کام شروع کیا اور اس وقت دبئی میں کام کر رہا ہوں۔ جب یہ اپارٹمنٹ فروری 2020 میں خریدا گیا تو اس کی قیمت 23 لاکھ 50 ہزار درہم تھی جبکہ باقی ماندہ رقم مشرق بینک کی مارٹگیج سے حاصل کی گئی۔ جب یہ اپارٹمنٹ مجھے منتقل کیا گیا تو میں نے اس کی نئی قیمت لگوائی جو 17 لاکھ 50ہزار اماراتی درہم تھی جس میں سے 3 لاکھ 50ہزار درہم میں نے ڈاؤن پیمنٹ کی اور دبئی اسلامک بینک سے 14 لاکھ درہم کی مارٹگیج حاصل کی۔ یہ مارٹگیج اب بھی فعال ہے۔
علی اقبال باجوہ نے اپنے دعوے کو تقویت دینے کے لیے متعلقہ دستاویزات بھی بطور شواہد نتھی کرکے بھیجی ہیں۔ ان دستا ویزا میں بینک اسٹیمنٹ اور بینکنگ کے لین دین مارٹگیج ایگریمنٹ، قرض کا ایگریمنٹ اور سعد صدیق کا ٹیکس ریٹرن اور علی اقبال کا ٹیکس ریٹرن بھیجاجس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جائیداد ٹیکس حکام کے سامنے ظاہر کی گئی ہے۔
ڈیٹا لیک جسے ماہرین معیشت اور رپورٹرز نے تجزیہ کیا ہے اس میں بہت سی رہائشی املاک موجود ہیں جو دبئی میں غیر ملکیوں کی ملکیت ہیں ان میں بھارتی پہلے نمبر پر آتے ہیں اور29700 بھارتیوں کےپاس 35 ہزار جائیدادیں موجود ہیں۔ ان املاک کی مجموعی قیمت کا تخمینہ 17 ارب ڈالرہے پاکستانی قومیت کے حامل جائیدادوں کے مالکان دوسرے نمبر پر آتے ہیں اور 17 ہزار پاکستانیوں کی 23 ہزار رہائشی املاک موجود ہیں۔
پاکستان کے بعد برطانوی شہریوں اور سعودی شہریوں کا نمبر آتا ہے۔ پاکستانی مالکان میں اوسط ویلیوفی کس مالک 0.41 ملین ڈالر ہے۔ پاکستانیوں کی املاک کی مشترکہ ویلیو 11 ارب ڈالر یا 300 کھرب روپے بنتی ہے جبکہ 204 قومیتوں کے حامل افراد کی املاک کی مجموعی ویلیو 386 ارب ڈالر بنتی ہے۔ جو کہ پاکستانی روپوں میں 1073 ٹریلین روپے بنتی ہے۔