آئی جی اسلام آباد نے میری ذاتی گاڑی توڑی، اسلحہ لیا، سامان لے گئے سب معاف ہے،فائل فوٹو
آئی جی اسلام آباد نے میری ذاتی گاڑی توڑی، اسلحہ لیا، سامان لے گئے سب معاف ہے،فائل فوٹو

علی امین گنڈاپور کی جی ایچ کیو حملہ کیس سمیت 11 مقدمات میں ضمانت منظور

راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) حملہ کیس سمیت 11 مقدمات میں ضمانت منظور کرلی اور سول لائنز میں درج مقدمے میں ضمانت پر سماعت کل صبح تک ملتوی کردی جبکہ عدالت نے علی امین گنڈا پور کو کل حاضری سے استثنیٰ دے دیا۔

انسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی کے جج ملک اعجاز آصف نے علی امین گنڈاپور کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے خلاف 12 مقدمات میں ضمانت کی دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی، علی امین گنڈا پور انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش ہوئے۔

جی ایچ کیو گیٹ حملہ کیس کے اسپیشل پراسیکیوٹر اکرام امین مہناس نے دلائل دیتے ہوئے کہا علی امین گنڈاپور نے شواہد عدالت سے چھپائے، ہمیں 17 جنوری 2024 کو نقول کی کاپیاں فراہم کی گئیں۔

واثق قیوم اور عمر تنویر نےعدالت کے سامنے 164 کے بیان ریکارڈ کرائے، جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر نے واثق قیوم عباسی اور عمر تنویر کے 164 کے بیان پڑھ کر سنائے۔

جج ملک اعجاز اصف نے کہا کہ جب سانپ کا زہر نکال دیا جائے تو اس کو مارنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ علی امین گنڈاپور نے 164 کے اعترافی بیان کو نہیں جھٹلایا، علی امین گنڈاپور اگر بے گناہ تھے تو اتنا وقت چھپے کیوں رہے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے عدالت سے استدعا کی کہ ٹرائل کے لیے کیس میں کچھ تو رہنے دیں، جس پر جج نے کہا کہ پراسیکیوشن اپنی ڈیوٹی کرے نہ کہ عدالت سے ایسی استدعا کرے، کیا 164 کا بیان پراسیکیوشن کا کیس ہے، اگر 164 کے بیان کے خلاف ملزم کو حق دفاع نہ دیا جائے تو اس کی کیا حیثیت ہے، 164 کے بیان کے لیے مجسٹریٹ کو اختیار ہے اور اس کا طریقہ کار بھی واضح ہے۔اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ 164 کا بیان دینے والے شخص کو اعترافی بیان پر سزا بھی ہو سکتی ہے۔

علی امین گنڈا پور کے وکیل نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی 9 مئی کے 12 کیسسز میں ضمانت ہو چکی ہے، علی امین گنڈا پور ایک صوبے کا وزیراعلی ہے، جو عدالت کے احترام میں سامنے کھڑا ہے، علی امین گنڈاپور کبھی نہیں چھپے، یہ ایک مثالی کیس ہے۔

عدالت کے استفسار کرنے پر کہ تھانہ سول لائنز مقدمے کا پراسیکیوٹر کہاں ہے؟ اس کے جواب میں پراسیکیوشن ٹیم نے بتایا کہ وہ سپریم کورٹ میں مصروف تھے یہاں حاضر نہیں ہو سکے، سول لائنز مقدمے میں حتمی دلائل کے لیے کل صبح تک کا وقت دیا جائے۔

جس پر جج ملک اعجاز اصف نے کہا کہ ہم یہاں صبح 8 بجے سے ان کے انتظار میں بیٹھے ہیں، کل صبح 8 بجے تک کا وقت دے رہے ہیں، کل پیش نہ ہوئے تو عدالت فیصلہ سنا دے گی۔بعد ازاں انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ملک اعجاز آصف نے سماعت کل تک ملتوی کردی۔