اسلام آباد: نیب ترامیم کالعدم قرا ردینے کیخلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپیلوں پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ مخدوم صاحب، کرپشن کے خلاف مضبوط پارلیمان، آزاد عدلیہ اوربے خوف لیڈر ضروری ہے،کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تینوں چیزیں موجود ہیں، یہاں تو اسے ختم کرنے کیلیے کوئی اور آرڈیننس لایا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو بند کردیں،آرڈیننس کے ذریعےآپ ایک شخص کی مرضی کو پوری قوم پر تھونپ دیتے ہیں،کیا ایسا کرنا جمہوریت کے خلاف نہیں،کیا آرڈیننس کے ساتھ صدر مملکت کو تفصیلی وجوہات نہیں لکھنی چاہئیں۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں لارجر بنچ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اپیلوں پر سماعت کی،حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے کہاکہ 2022کے فالو اپ پر 2023کی ترامیم بھی آئی تھیں،عدالت نے فیصلے میں 2022کی ترامیم ہی کالعدم قرار دیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ تو آپ ٹیکنیکل اعتراض اٹھا رہے ہیں،وکیل مخدوم علی خان نے کہاکہ یہ ٹیکنیکل اعتراض بھی موجود ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہم ان سوالات پر بانی پی ٹی آئی سے جواب لیں گے،بانی پی ٹی آئی یہ نکات نوٹ کر لیں،مخدوم علی خان نے کہاکہ بانی پی ٹی آئی وزیراعظم تھے قانون بدل سکتے تھے مگر آرڈیننس لائے،نیب ترامیم کا معاملہ پارلیمانی تنازع تھا جسے سپریم کورٹ لایا گیا،ملی بھگت سے یہ معاملہ سپریم کورٹ لایا گیا،عدالت نے وکیل مخدوم علی خان کو ایسے الفاظ استعمال کرنے سے روک دیا۔
سٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا کسی بل پر کوئی پارٹی رکن اپنی پارٹی فیصلے کیخلاف ووٹ دے سکتا ہے؟چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اگر کوئی مقدمہ عدالت آیا تو اسے روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کرنا چاہئے،قانون کو معطل کرنا بھی نظام کے ساتھ سازباز کرنا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ ہم میرٹ پر چلتے تو بہتر ہوتا،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ پریکٹس اینڈپروسیجر ایکٹ کی شق 2کے تحت اپیل متاثرہ شخص کر سکتا ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اگر سپریم کورٹ کسٹم ایکٹ کالعدم قرار دے تو کیا حکومت اپیل نہیں کر سکتی،حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے کہاکہ بالکل حکومت اپیل کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے حکومتی وکیل کو ہدایت کی کہ پھر آگے بڑھیں،اس معاملے پر نظرثانی درخواست موجود ہے،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ مخدوم صاحب، کرپشن کے خلاف مضبوط پارلیمان، آزاد عدلیہ بے خوف لیڈر ضروری ہے،کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تینوں چیزیں موجود ہیں، یہاں تو اسے ختم کرنے کیلئے کوئی اور آرڈیننس لایا جا رہا ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو بند کردیں،آرڈیننس کے ذریعےآپ ایک شخص کی مرضی کو پوری قوم پر تھونپ دیتے ہیں،کیا ایسا کرنا جمہوریت کے خلاف نہیں،کیا آرڈیننس کے ساتھ صدر مملکت کو تفصیلی وجوہات نہیں لکھنی چاہئیں۔
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔