عمران خان:
حساس اداروں نے کرپشن کی روک تھام کیلئے اسمگلنگ کے خلاف کارروائی کرنے والی ٹیموں کی نگرانی شروع کردی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں انٹیلی جنس نیٹ ورک فعال کردیا گیا۔ ذریعے کے مطابق تجارتی مالیاتی فراڈ اور کرپشن پر کنٹرول کرکے ملکی محصولات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیلئے بندرگاہوں، ایئرپورٹس اور ٹرمینلز پر مستقل انٹیلی جنس نظام قائم کردیا گیا ہے۔
ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز انٹیلی جنس کراچی کے ماتحت اس انتظام کے ذریعے ماہانہ بنیادوں پر 2 رپورٹیں ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز کے حکام کے توسط سے وفاقی حکومت اور مقتدرہ ادارے کے حکام تک ارسال ہوا کریں گی۔ جن کی روشنی اور سفارشات پر، ملوث سرکاری افسران، کمپنیوں کے مالکان اور ایجنٹوں کے علاوہ دیگر بینکوں کی انتظامیہ کے خلاف مسلسل کارروائیوں کیلئے کام شروع کردیا جائے گا۔
’’امت‘‘ کو دستیاب دستاویزات کے مطابق گزشتہ دنوں ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کی جانب سے ایک مراسلہ جاری کیا گیا۔ جس میں کسٹمز انٹیلی جنس کی جانب سے لگ بھگ 30 شعبوں اور مقامات کے حوالے سے کسٹمز انٹیلی جنس کے افسران کو تعینات کرکے ذمے داریاں دی گئی ہیں۔
ماڈل کسٹمز اپریزمنٹ کلکٹریٹ ایسٹ، کسٹمز اپریزمنٹ کلکٹریٹ ویسٹ، کسٹمز اپریزمنٹ کلکٹریٹ ایس اے پی ٹی، کسٹمز اپریزمنٹ کلکٹریٹ پورٹ قاسم، کسٹمز ایئرپورٹ ایئر فریٹ یونٹ، کسٹمز کلکٹریٹ ایئر پورٹ شعبہ بین الاقوامی آمد، شعبہ بین الاقوامی روانگی، اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن، ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ پورٹ قاسم ایکسپورٹ، ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ ایکسپورٹ کے پی ٹی، ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ انفورسمنٹ کراچی، ڈائریکٹوریٹ جنرل ٹرانزٹ ٹریڈ، کسٹمز جنرل پوسٹ آفس، کسٹمز ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ (آر اینڈ ڈی)، کسٹمز اینٹی منی لانڈرنگ، کسٹمز انویسٹی گیشن اینڈ پراسیکیوشن (آئی اینڈ پی)، کسٹمز شعبہ نیلامی، کسٹمز لیگل، ایڈمن، اسٹیٹ ویئر ہائوس یعنی کسٹمز کے گودام، شعبہ اکائونٹس، شعبہ ٹرانسپورٹ، شعبہ آڈٹ وغیرہ میں کسٹمز انٹیلی جنس کے تحت تعیناتیاں کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس کے ساتھ ہی انہیں اپنے متعلقہ شعبوں کے حوالے سے روزمرہ امور کے معاملات، ممکنہ کرپشن، بے قاعدگیوں پر نظر رکھنے کے علاوہ ان شعبوں میں کرپشن اور نااہلی برتنے والے افسران اور ٹیکس چوری کی ورداتوں کے حوالے سے رپورٹنگ کرنے کی ہدایات دی گئیں ہیں۔ ذرائع کے بقول یہ فیصلہ حساس اداروں کی ان رپورٹس کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ جو چند ماہ تک کسٹمز، ایف بی آر اور ایف آئی اے کی مختلف ٹیموں کے ساتھ کام کرکے مرتب کی گئی ہیں۔
ان رپورٹوں میں مقتدرہ ادارے اور وفاقی وزارتوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اس وقت ملک کو سب سے زیادہ معاشی نقصان ٹریڈ بیسڈ منی لانڈرنگ سے پہنچایا جا رہا ہے۔ جس کا حجم ملک سے مجموعی طور پر ہونے والے زر مبادلہ کی غیر منتقلی کا 70 فیصد سے بھی زائد ہے۔ ان رپورٹوں میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس ٹریڈ بیسڈ منی لانڈرنگ سے وہ3 طرح کے کمپنی مالکان منسلک ہیں۔ جو بیرون ملک سے منگوائے جانے والے سامان کی قیمتیں مس ڈکلریشن کے ذریعے کم سے کم ظاہر کرکے اربوں روپے کی ٹیکس چوری کرتے ہیں۔
دوسرے نمبر پر ایسے تاجر ہیں۔ جو ملک میں ایران اور افغان ٹرانزٹ سے اسمگلنگ کے ذریعے آنے والے سامان کو جعلی کمپنیاں رجسٹرڈ کرواکر ان کے ذریعے جعلی خرید و فروخت کی بوگس انوائسز بناکر اربوں روپے کی سیلز ٹیکس چوری کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ تیسری قسم کے وہ بڑے صنعتکار اور سرمایہ دار ہیں۔ جو مذکورہ دونوں اقسام کی جعلسازیاں یعنی انڈر انوائسنگ کے ذریعے در آمد کرکے اور اسمگلنگ کا سامان جعلی انوائسز پر استعمال کرکے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچا رہے ہیں۔
مذکورہ رپورٹوں میں ان حقائق سے بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ ایسے ٹیکس چوروں اور زر مبادلہ غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کرانے والے ہزاروں کمپنی مالکان کے خلاف گزشتہ کئی برسوں میں ایف بی آر اور کسٹمز کی جانب سے ٹیکس چوری، جعلسازی اور اسمگلنگ کی تمام ہی دفعات کے تحت مقدمات قائم کیے جاتے رہے ہیں۔ تاہم ان کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔ کیونکہ ان قوانین کے تحت بنائے جانے والے مقدمات میں ملزمان کو روایتی انداز کی کمزور تفتیش، قوانین شہادت میں موجود سقم اور ماہر وکلا کی خدمات کے ذریعے عدالتوں سے 100فیصد ریلیف ملنے کا امکان موجود رہتا ہے۔ جبکہ ایسی کارروائیوں میں حکومتی اداروں کے کروڑوں روپے کے وسائل خرچ ہوتے ہیں اور ریکوری کچھ بھی نہیں ہوپاتی۔
یہی وجہ ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف ٹیکس چوری، اسمگلنگ اور جعلسازیوں سے مالیاتی جرائم کرنے کے ہر کیس میں اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت ایک نیا کیس بنایا جائے۔ رپورٹوں کے مطابق چونکہ 2019ء میں ٹیکس چوری اور اسمگلنگ سے اربوں روپے کا کالا دھن بنانے والے ملزمان کیخلاف سخت کارروائیوں کیلئے اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010ء اور کسٹمز ایکٹ میں کچھ تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ جس کے تحت اب کسٹمز اور ایف بی آر کی فیلڈ فارمیشنز کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ٹیکس چوری اور اسمگلنگ کے روایتی کیسز کی تفتیش میں اگر یہ سمجھیں کہ ملزمان کیخلاف ان جرائم سے پیسے کماکر دیگر کاروبار میں لگانے یا اثاثے بنانے کے ثبوت مل گئے ہیں تو ان کے خلاف اینٹی منی لانڈرنگ کی کارروائی شروع کردی جائے۔ کیونکہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت مقدمہ میں ملزمان کے اثاثے بحق سرکار ضبط کرکے قومی خزانے میں منتقل کرنے کا آپشن موجود ہے۔ جبکہ روایتی کیسز میں عدالتیں ان کی دفعات کے مطابق سزائوں کو فیصلہ کرتی ہیں۔
ذرائع کے مطابق حالیہ دنوں میں جب ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز انٹیلی جنس کے کراچی، پشاور، کوئٹہ، لاہور اور اسلام آباد کے صوبائی دفاتر کو 100 سے زائد بڑے مالیاتی اسکینڈلز کی فائلیں بھیجی گئیں تو ساتھ ہی ڈائریکٹر کسٹمز انٹیلی جنس کراچی انجینئر حبیب کی خصوصی کاوشوں سے کسٹمز انٹیلی جنس کے تفتیشی افسران کو اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت تحقیقات میں مہارت سے لیس کرنے کے اقدامات بھی شروع کردئے گئے۔
اس کیلیے پہلے مرحلے میں ایف آئی اے میں اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت قائم کیے جانے والے کئی بڑے اسکینڈلز کی تحقیقات کا تجربہ اور مہارت رکھنے والے افسر روئف شیخ کے ذریعے کسٹمز انٹیلی جنس کراچی کے دو درجن کے لگ بھگ افسران کو تربیت دلوائی گئی ہے۔ جس کے مکمل ہونے پر گزشتہ دنوں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے سائوتھ مجاہد اکبر کے ہاتھوں کسٹمز انٹیلی جنس کراچی کے دفتر میں ہونے والی ایک تقریب میں تربیت حاصل کرنے والے تفتیشی افسران کو اسناد دلوائی گئیں۔ ان تفتیشی افسران نے اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت درجنوں انکوائریوں پر کام شروع کردیا ہے۔ جس کے نتیجے میں اب تک متعدد مقدمات بھی قائم کردیئے گئے ہیں۔