اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں سزا کیخلاف عمران خان اور شاہ محمود کی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماعت ہوئی۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ اس متعلق کوئی دستاویز نہیں کہ اعظم خان نے سائفر بانی پی ٹی آئی کو دیا، اگر سائفر گم ہوگیا تو پھر سائفر پاس رکھنے کا چارج کیسے لگ سکتا ہے؟ میری استدعا ہے ملزمان کو ڈسچارج کیا جائے، عدالت میں کسی مخصوص ملک کا نہیں بتایا گیا جس کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر پراسیکیوشن کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کیس کو ٹرائل کورٹ واپس بھیج دیں اس میں خامیاں ہیں۔
سلمان صفدر نے جواب دیا کہ ہمیں اس کیس میں تین ماہ ہو گئے ہیں ہم بہت آگے نکل گئے ہیں، تیسری دفعہ کیس ریمانڈ بیک کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔
عدالت نے اسپیشل پراسیکیوٹر سے کہا کہ آپ محض یہ کہہ رہے ہیں تعلقات خراب ہو سکتے تھے، کیا صرف اس پر کسی کو سزائے موت دے سکتے ہیں یا دس سال جیل میں رکھ سکتے ہیں کہ خراب ہو سکتے تھے، قانون کی منشا یہ نہیں ، بانی پی ٹی آئی نے جان بوجھ کر سائفر کاپی اپنے پاس رکھی اس سے متعلق بتائیں۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ گواہ کے مطابق بانی پی ٹی آئی کو بار بار کہا گیا سائفر کاپی کے ساتھ یہ نا کریں ، 342 کے بیان میں بانی پی ٹی آئی خود مان رہے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ اگر وہ کہہ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں جان بوجھ کر کہہ رہے ہیں ، آپ نے ثابت کرنا ہے، سپریم کورٹ کا قانون واضح ہے جہاں ملزم تسلیم بھی کر لے تو پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے ، اگر آپ ٹرائل کورٹ کو کاپی دیکھا دیتے تو پھر پراسیکوشن کا کیس بن سکتا تھا، جہاں اعظم خان کہہ رہے ہیں وزیر اعظم نے مجھے کہا ملٹری سیکرٹری اور اسٹاف کو کہو کہ وہ ڈھونڈیں ، تو پھر جان بوجھ کر اپنے پاس رکھنے والی بات تو بھول جائیں۔
عدالت نے اسپیشل پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ اسٹیٹ سیکیورٹی کیسے خطرے میں پڑی ؟ اس حوالے سے بتائیں ، اگر بانی پی ٹی آئی نے گم کر دیا تو اسکے اثرات کیا ہوئے ؟ جب ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کے اثرات کیا ہوئے تو پھر کیا ہو گا؟ شہادت میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ قانون میں تھا کہ سائفر کی کاپی واپس کرنا تھی ، ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں کہ بانی پی ٹی آئی اس کے اثرات سے آگاہ تھے، آپ کی جو رولز بک ہے اس تک مخصوص لوگ ہی رسائی حاصل کر سکتے ہیں ، جرم آپ نے پورا ثابت کرنا ہوتا ہے ، جلدی میں نہ کراتے اور آرام آرام سے کرا لیتے تو یہ سب کچھ ٹھیک ہو جاتا، کیا دنیا میں کوئی جسٹیفائی کر سکتا ہے کہ دوپہر کو 342 کا بیان مکمل ہوتا ہے اور 77 صفحے کا فیصلہ آجاتا ہے ، آپ بھی کہہ سکتے تھے آپ نے بھی غیر معمولی جلدی تیزی دکھائی۔عدالت نے سائفر کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔