اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر کے خلاف مہم کیس میں وزارت دفاع کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے دوبارہ جمع کرانے کا حکم دیدیا۔
جسٹس بابر ستار کے خلاف سوشل میڈیا مہم اور فیملی کا ڈیٹا لیک ہونے پر توہین عدالت کے کیس کی سماعت ہوئی۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے کی رپورٹ آئی ایس آئی سے بہت بہتر ہے۔ ایف آئی نے کہا کہ 16 اکاؤنٹس کی نشاندہی کی گئی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس میں کہا کہ مہم کا آغاز کرنے والے لوگوں کیخلاف تحقیقات کریں۔
دوران سماعت ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ کچھ چیزوں کی نشاہدہی ہو گئی ہے، ہم عدالت میں پیش کردیتے ہیں، جس پر محسن اختر کیانی نے کہا کہ کچھ چیزیں ابھی آنا باقی ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ہدایت کی کہ جنہوں نے سوشل میڈیا مہم کا آغاز کیا ان کا پتہ لگائیں، جو اصل لوگ ہیں ان کا تعین کریں، ہم آرڈر کردیں گے آپ اصل ذمہ داروں کا تعین کریں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ مہم کا آغاز کرنے والے لوگوں کے خلاف تحقیقات کریں، آپ نے ان کا تعین کرنا ہے جنہوں نے جج کی فیملی کا ڈیٹا سب سے پہلے شیئر کیا، ہم اس حوالے سے ایک مناسب آرڈر بھی جاری کر دیں گے۔
جسٹس سردار اعجاز نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ایک ہی روز میں 3 مختلف مہم چلائی گئیں؟ اگر ملک دشمنوں کی جانب سے فائیو جی وار شروع کردی جائے، اگر ملک دشمن یہ الزام عائد کردیں کہ آرمی چیف، صدر مملکت توہین مذہب کے مرتکب ہوئے ہیں اور ان الزامات کے نتیجے میں جلاؤ گھیراؤ ہو، بلڈنگز کو جلا دیا جائے تو کیا آئی ایس آئی ان ملک دشمن عناصر کو ٹریس کر سکے گی یا نہیں؟
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ ایک ہاں اور نا کا سوال ہے، بتائیں آپ کی استعداد ہے کہ نہیں؟
جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ حکومت کے پاس فائیو جی وار فیئر کے خلاف کوئی سافٹ ویئر موجود نہیں؟ آپ بتائیں کہ فائیو جی وار فیئر کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ کے پاس کیا وسائل موجود ہیں؟
آڈیو لیکس کیس: جسٹس بابر ستار نے ججز پر اعتراض کی درخواستیں بدنیتی پر مبنی قرار
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ قومی سلامتی کے معاملات خفیہ ہے تو سربمہر لفافے میں جمع کرا دیں۔
جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے ایف آئی اے حکام کو کہا کہ آپ نے ہمیں بہت مایوس کیا ہے، ایف آئی اے نے اس رپورٹ سے بہت بہتر رپورٹ جمع کروائی ہے ، ہم سپیرئیر ایجنسی سے ویسا ہی کام کی توقع کررہے تھے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے نے واقعی بہت کام کیا ہے۔
عدالت نے مزید استفسار کیا کہ کیا گرین کارڈ والے کو امریکی شہری کہیں گے؟ امیگریشن حکام نے بتایا کہ وہ امریکی شہری نہیں ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ جج کی انفارمیشن جو صرف ایف آئی اے کے پاس ہوسکتی تھی وہ کسی سسٹم سے نکال کر اپلوڈ ہوئی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹریول دستاویز پبلک ہوئی ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے سسٹم سے دستاویزات نکالی جانے پر ڈی جی امیگریشن ڈیپارٹمنٹ سے رپورٹ طلب کرلی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ سسٹم میں معزز جج کی یہ انفارمیشن کتنی بار چیک کی گئی؟ آپ نے بتانا ہے کہ یہ انفارمیشن کیسے لیک ہوئی، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ ڈی جی امیگریشن کہتے ہیں کہ یہ انفارمیشن ہمارے پاس نہیں ہوتی۔
امیگریشن حکام نے بتایا کہ ہماری تکنیکی ٹیم آئندہ سماعت پر عدالت کی معاونت کردے گی، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ انفارمیشن کے لیے لاگ ان کیا گیا ہوگا وہ آپ نے بتانا ہے۔
جسٹس محسن اختر نے کہا کہ آپ نے اسٹینڈ لے لیا ہے کہ پی آر کارڈ ہونے کا مطلب امریکا کی شہریت نہیں ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پی آر کارڈ ہونے کا مطلب شہریت نہیں ہے۔
بعد ازاں کیس کی سماعت تین ہفتوں تک ملتوی کردی گئی، عدالت نے ریمارکس دیے کہ آئندہ کی تاریخ تحریری حکم نامے میں ہوگی۔