پراسیکیوشن کے پاس  سوائے جھنڈوں کے کوئی ثبوت موجود نہیں، فائل فوٹو
پراسیکیوشن کے پاس  سوائے جھنڈوں کے کوئی ثبوت موجود نہیں، فائل فوٹو

عمران خان اور شاہ محمود قریشی سائفر کیس میں بری

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں کلین چٹ دیدی۔

عدالت نے بانی پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے ان  کی سزا کالعدم قرار دے دی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے مختصر فیصلہ سنایا، بینچ میں چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب شامل ہیں۔

ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماعت ہوئی، جس میں سماعت کے بعد عدالت نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزاؤں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں کیس سے بری کردیا۔

شاہ محمود قریشی کی بھی سائفر کیس میں سزا کےخلاف اپیل منظور کرلی گئی، اور انہیں بھی اس کیس میں بری کردیا گیا۔

 سماعت کے دوران ایف آئی اے پراسیکیوٹر کی عدم حاضری پر عدالت  نے برہمی کا اظہار کیا۔

بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ اس متعلق کوئی دستاویز نہیں کہ اعظم خان نے سائفر بانی پی ٹی آئی کو دیا، اگر سائفر گم ہوگیا تو پھر سائفر پاس رکھنے کا چارج کیسے لگ سکتا ہے؟ میری استدعا ہے ملزمان کو ڈسچارج کیا جائے، عدالت میں کسی مخصوص ملک کا نہیں بتایا گیا جس کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر پراسیکیوشن کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کیس کو ٹرائل کورٹ واپس بھیج دیں اس میں خامیاں ہیں۔

سلمان صفدر نے جواب دیا کہ ہمیں اس کیس میں تین ماہ ہو گئے ہیں ہم بہت آگے نکل گئے ہیں، تیسری دفعہ کیس ریمانڈ بیک کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔

عدالت نے اسپیشل پراسیکیوٹر سے کہا کہ آپ محض یہ کہہ رہے ہیں تعلقات خراب ہو سکتے تھے ، کیا صرف اس پر کسی کو سزائے موت دے سکتے ہیں یا دس سال جیل میں رکھ سکتے ہیں کہ خراب ہو سکتے تھے، قانون کی منشا یہ نہیں ، بانی پی ٹی آئی نے جان بوجھ کر سائفر کاپی اپنے پاس رکھی اس سے متعلق بتائیں۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ گواہ کے مطابق بانی پی ٹی آئی کو بار بار کہا گیا سائفر کاپی کے ساتھ یہ نا کریں ، 342 کے بیان میں بانی پی ٹی آئی خود مان رہے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ اگر وہ کہہ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں جان بوجھ کر کہہ رہے ہیں ، آپ نے ثابت کرنا ہے، سپریم کورٹ کا قانون واضح ہے جہاں ملزم تسلیم بھی کر لے تو پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے ، اگر آپ ٹرائل کورٹ کو کاپی دیکھا دیتے تو پھر پراسیکوشن کا کیس بن سکتا تھا، جہاں اعظم خان کہہ رہے ہیں وزیر اعظم نے مجھے کہا ملٹری سیکریٹری اور اسٹاف کو کہو کہ وہ ڈھونڈیں ، تو پھر جان بوجھ کر اپنے پاس رکھنے والی بات تو بھول جائیں۔

عدالت نے اسپیشل پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ اسٹیٹ سیکورٹی کیسے خطرے میں پڑی ؟ اس حوالے سے بتائیں ، اگر بانی پی ٹی آئی نے گم کر دیا تو اسکے اثرات کیا ہوئے ؟ جب ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کے اثرات کیا ہوئے تو پھر کیا ہو گا؟ شہادت میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ قانون میں تھا کہ سائفر کی کاپی واپس کرنا تھی ، ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں کہ بانی پی ٹی آئی اس کے اثرات سے آگاہ تھے، آپ کی جو رولز بک ہے اس تک مخصوص لوگ ہی رسائی حاصل کر سکتے ہیں ، جرم آپ نے پورا ثابت کرنا ہوتا ہے ، جلدی میں نا کراتے اور آرام آرام سے کرا لیتے تو یہ سب کچھ ٹھیک ہو جاتا، کیا دنیا میں کوئی جسٹیفائی کر سکتا ہے کہ دوپہر کو 342 کا بیان مکمل ہوتا ہے اور 77 صفحے کا فیصلہ آجاتا ہے ، آپ بھی کہہ سکتے تھے آپ نے بھی غیر معمولی جلدی تیزی دکھائی۔

بعد ازاں عدالت نے سائفر کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا، جس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے کیس سے بری کردیا۔

واضح رہے کہ ٹرائل کورٹ نے 30 جنوری کو دونوں کو دس دس سال قید کا حکم سنایا تھا۔