سید نبیل اختر:
واٹر کارپوریشن کو ورلڈ بنک کی جانب سے کراچی کے شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی و نکاسی کیلئے تقریباً ساڑھے 4 کھرب روپے قرض دینے کی منظوری ملی۔ بعدازاں 100 ملین ڈالر کی رقوم واٹر کارپوریشن کو دے دی گئیں۔ تاکہ کراچی کے مختلف منصوبے شروع کیے جاسکیں۔ رقوم کھاتوں میں منتقل ہونے پر ان منصوبوں میں کرپشن کی کوششیں شروع ہوئیں اور کہا گیا کہ زیادہ تر پیسہ تو زیر زمین لگنا ہے۔ ہر ایک پائپ تو ورلڈ بینک کے نمائندے چیک کرنے نہیں آئیں گے۔ نتیجتاً بڑے پیمانے پر ان رقوم میں سے خورد برد کی جاسکتی ہے۔ یہ بات واٹر کارپوریشن کے اعلیٰ افسران کے ایک اجلاس میں ہوئی۔ تاہم اس کے شواہد نہ ہونے پر انہیں رپورٹ نہ کیا جاسکا۔
18 مئی کو کراچی کے علاقے اسکیم 33 میں ورلڈ بینک سے ملنے والی رقوم سے 12 کروڑ روپے خرچ کرکے زیر زمین پی پائپ ڈالے گئے۔ جو لائن چارج کرنے پر پھٹ گئے۔ واٹر کارپوریشن نے اس نقصان پر کوئی اقدامات نہیں اٹھائے اور معاملہ دبانے کی کوشش کی جانے لگی۔ تاہم اس معاملے کی تحقیقات کا آغاز ہوگیا ہے۔ جس میں ورلڈ بینک کے تعاون سے شروع ہونے والے منصوبوں میں خرچ ہونے والی رقوم، پروجیکٹ میں شامل افسران کی ذاتی تفصیلات، کنسلٹنٹ کمپنیوں کے کردار اور واٹر کارپوریشن کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کے حوالے سے معلومات جمع کی جارہی ہیں۔ تحقیقاتی ادارے واٹر کارپوریشن کے ایسے بڑے منصوبوں کی چھان بین بھی کر رہے ہیں۔ جس میں کرپشن کے امکانات ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی کے شہریوں کا پانی انڈسٹریز کو فروخت کرنے کے معاملے کی بھی تحقیقات شروع کردی گئیں۔ جس کے باعث کراچی میں پانی کی قلت پیدا ہونا شروع ہوئی۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ کراچی واٹر کارپوریشن کے ذیلی ادارے واٹر اینڈ سیوریج سروسز امپروومنٹ پروجیکٹ نے عالمی بینک کے 12 کروڑ روپے سے اسکیم 33 میں پانی کی بلاتعطل فراہمی اور بوسیدہ لائن سے جان چھڑانے کیلئے 5 ہزار 700 رننگ اسکوائر فٹ 18 انچ قطر کی لائن ڈالی تھی۔ ڈیڑھ برس گزرنے کے بعد جب لائن پمپ کی گئی تو وہ جگہ جگہ سے لیک تھی۔ چند گھنٹوں میں ہی ختم نبوت چوک سے مدراس چوک تک سڑک سمندر کا منظر پیش کرنے لگی۔ لیکیج ڈھونڈنے کیلئے کھدائی کی گئی تو انکشاف ہوا کہ ظاہر ہونے والے تینوں پی پائپس نیچے سے پھٹے ہوئے ہیں۔ نئی لائن سے پانی فراہمی کے نام پر رہائشی سوسائٹیز سے کروڑوں روپے وصول کیے جاچکے ہیں۔ بیس روز سے کنیز فاطمہ اور اسکیم 33 کی دیگر سوسائٹیوں میں پانی کی فراہمی مکمل بند ہے۔
واٹر کارپوریشن کے ذریعے نے بتایا کہ اسکیم 33 میں پانی فراہم کرنے والی لائن اس قدر بوسیدہ ہو چکی تھی کہ سپلائی کے وقت ہر ماہ بیس سے پچیس لیکیج بنوانا پڑتے۔ مذکورہ اٹھارہ انچ کی لائن کی تبدیلی عالمی بینک سے ملنے والی رقم سے کرانے کا فیصلہ کیا گیا اور واٹر کارپوریشن کے ذیلی ادارے کراچی واٹر اینڈ سیوریج سروسز امپروومنٹ پروجیکٹ نے مذکورہ کام کیلئے پاکستان کی معروف کنسلٹنٹ فرم نیسپاک سے مدد لی۔ جس دور میں لائن ڈالی گئی۔ اس وقت دلاور جعفری ایگزیکٹو انجینئر تھے۔ ان کی ذمہ داری تھی کہ لائن کی تنصیب یا کام کی نگرانی کرتے۔ تاہم ایسا نہ ہوا اور جب ڈیڑھ برس بعد لائن چارج کی گئی تو وہ جگہ جگہ سے ڈیمیج نکلی۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ کنیز فاطمہ سوسائٹی کے شعبہ آر آر جی نے 4 کنکشن سینکشن کیے اور ان سے دس بارہ سال کے واجبات تقریباً ساڑھے 5 کروڑ روپے بھی وصول کیے اور یقین دہانی کرائی گئی کہ نئی لائن سے آپ کو کنکشن دے دیئے جائیں گے۔ جس کے بعد پانی کی عدم فراہمی کی شکایت ختم ہوجائے گی۔ اسکیم 33 میں واٹر کارپوریشن کے افسران نے 16 مئی کو لائن چارج کی۔ ان کا خیال تھا کہ نئی لائن کے باعث تمام سوسائٹیز کو پانی فراہم کردیا جائے گا۔ تاہم کچھ ہی گھنٹوں میں ختم نبوت چوک سے مدراس چوک تک سارا ایریا دیکھتے ہی دیکھتے سمندر بن گیا اور ہزاروں گیلن پانی ضائع ہوگیا۔ واٹر کارپوریشن حکام نے واٹر چارجنگ بند کرکے لائن چیک کرنے کیلئے میشنیں منگوائیں تو لائن ظاہر ہونے پر پتا چلا کہ نئے پی پائپس نیچے (پیندے) سے پھٹے ہوئے ہیں۔
مذکورہ نشاندہی کو دو روز گزر چکے ہیں۔ تین روز سے اسکیم 33 میں پانی کی فراہمی بند ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ نئی لائن ڈالنے کے بعد کراچی واٹر امپروومنٹ پروجیکٹ نے کارپوریشن میں تعینات ڈسٹری بیوشن حکام کو لائن سے متعلق کوئی ہدایت بھی نہیں کی۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ مذکورہ لائن کا کام مکمل نہیں ہوا تھا۔ حاصل معلومات کے مطابق مذکورہ لائن میں 18 انچ کا ایک والو اور 9 ٹی نصب کی گئیں۔ ’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ نئی لائن میں ہائی ٹیک کا پائپ لگا ہوا ہے۔ جو 14 ہزار روپے رننگ اسکوائر فٹ کے حساب سے مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ مذکورہ لائن کتنی جگہ سے لیک ہے اور اس کے کتنے پائپ متاثر ہیں۔ اس حوالے سے ایکسی این کے پاس بھی کوئی معلومات نہیں۔
ذرائع کے مطابق مذکورہ کام کا ٹھیکہ اس ٹھیکے دار کمپنی کے پاس ہے۔ جو لیاری ندی کے اطراف سی ٹی ایم کی 33 انچ کی لائن کی تنصیب کیلئے 750 کالم تیار کرچکے ہیں اور یہ منصوبہ اربوں روپے مالیت کا ہے۔ وہاں اسکیم 33 کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ہم نے ہر گھر سے 84 ہزار روپے اکٹھا کرکے ساڑھے پانچ کروڑ روپے کی ادائیگی کی۔ تاکہ پانی مل سکے۔ لیکن اب لائن کی خرابی کا بہانہ بنایا جارہا ہے اور ایک ماہ سے پانی کی ایک بوند بھی فراہم نہیں کی گئی۔ معاملہ سامنے آنے کے بعد واٹر کارپوریشن کے ایم ڈی سید صلاح الدین نے ایکسی این دلاور جعفری کے خلاف کارروائی سے گریز کیا اور انہیں بیرون ملک دورے پر بھیج دیا۔ علاقے کے نئے ایکسی این نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ مذکورہ لائن کی تبدیلی کا کام ابھی تک شروع نہیں کیا جاسکا۔ تحقیقاتی ادارے نے اس پروجیکٹ میں شامل افسران کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ مذکورہ تحقیقات میں پروجیکٹ ڈائریکٹر اور کنسلٹنٹ کمپنی سے بھی پوچھ گچھ کی جائے گی۔
تحقیقاتی ادارے نے انڈسٹری کو پانی کی سپلائی کی آڑ میں میٹھے پانی کی لائنیں چھلنی کرنے والی مافیا کے خلاف بھی تحقیقات شروع کردی ہیں۔ جس میں اینٹی تھیفٹ سیل کے سربراہان، واٹر کارپوریشن کے اعلیٰ افسران کو بھی شامل تفتیشن کیا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ رینجرز کی جانب سے کھارے پانی کے نام پر میٹھے پانی کی سپلائی کرنے والی مافیا کے خلاف کارروائی کے بعد سب سوائل کے ٹھیکیداروں نے ہڑتال کردی۔ جسے ایم ڈی نے مذاکرات کے بعد ختم کرادیا۔ واٹر کارپوریشن حکام نے بتایا کہ سندھ حکومت نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے ماتحت زیر زمین پانی نکالنے اور پانی چوری پر قابو پانے کیلئے نئے مسودے کی باقائدہ منظوری دیتے ہوئے گزیٹ نوٹیفکیشن جاری کردیا۔
نئے قانون کے تحت صنعتی علاقوں میں زیر زمین پانی نکالنے کیلئے تمام قواعد و ضوابط پورے کرنے کے بعد 2 سال کی مدت کیلئے لائسنس کا اجرا کیا جائے گا اور تمام بورنگ پر میٹر لگائیں جائیں گے۔ جبکہ پچھلے تمام لائسنس منسوخ کیے گئے ہیں۔ نئے مسودے کے تحت ایک لائسنس سے چار نمبر بورنگ لگانے کی اجازت ہوگی۔ اس سے زائد بورنگ لگانے کیلئے دوسرا لائسنس لینا پڑے گا۔ نئے قانون کے مطابق صنعتی مقاصد کیلئے زیر پانی استعال کرنے کیلئے واٹر کارپوریشن سے لائسنس لازمی لینا ہوگا۔
زیر زمین پانی کی پانچ کیٹیگری انڈسٹریل، گرائونڈ واٹر آپریٹر، کمرشل، ہیلتھ کیئر اینڈ ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ اور رہائشی کمپلیکس بنائی گئی ہیں۔ زیر زمین پانی استعال کیلئے لائسنس جاری کرنے کے سلسلے میں سی ای او واٹر کارپوریشن انجینئر سید صلاح الدین احمد نے پانچ رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی۔ جس کے کنوینر اویس ملک ہوں گے۔ جبکہ باقی ممبران میں محمد دلاور جعفری، محمد خالد فاروقی، مرزا عبید الرحمن اور سید حسنین عباس شامل ہیں۔ زیر زمین پانی نکالنے کا لائسنس حاصل کرنے والے خواہش مند لائسنس کے حصول کیلئے اپنے متعلقہ انڈسٹریل اسٹیٹ کے چیئرمین یا صدر کے ذریعے سی ای او واٹر کارپوریشن کے نام درخواست دیں گے۔ جس کے بعد تشکیل دی گئی کمیٹی درخواست کا مکمل جائزہ لے کر لائسنس کا اجرا یا درخواست مسترد کرنے کی مجاز ہوگی۔
نئے قانون کے مطابق پانی چوری یا غیرقانونی فروخت کے ریکارڈ کے حامل افراد کو لائسنس سب سوائل واٹر ریگولیشن ایکٹ 2018ء کے تحت منسوخ کیا جائے گا۔ نئے مسودے میں کسی بھی قسم کی بورنگ واٹر کارپوریشن کی کنڈیوٹ، بلک لائن، ریزروائر اور پمپنگ اسٹیشن سے 330 فٹ سے کم فاصلے پر رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ بورنگ اور ٹیوب ویل 24 انچ ڈایا انچ سے زائد کے نہیں ہوں گے۔ خلاف ورزی پر سخت قانونی کارروائی کرتے ہوئے لائسنس فوری منسوخ کردیا جائے گا۔ اس کے علاوہ پانی کی چوری یا غیرقانونی پانی کی فروخت ثابت ہونے پر واٹر کارپوریشن لائسنس ہولڈر پر 50 لاکھ روپے جرمانہ عائد کر سکے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ کھارے پانی کے ٹھیکے میں کروڑوں روپے رشوت لی جائے گی اور کمیٹی کے ایک رکن نے ایک ایسے افسر کو سیکریٹری بنوایا ہے۔ جس کے خلاف واٹر کارپوریشن کے 80 لاکھ روپے وصول کرنے کی سفارشات سامنے آئی تھیں۔ مذکورہ سیکریٹری کو محض دستاویزات پر دستخط کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ جبکہ کھارے پانی کا پورا سیٹ اپ ایگزیکٹو انجینئر دلاور جعفری اور ان کا فرنٹ مین عامر پیجر دیکھیں گے۔ تحقیقاتی ادارے کے افسر کے بقول ایم ڈی کی سب سوائل کے ٹھیکیداروں کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں عامر پیجر کی موجودگی واٹر کارپوریشن حکام کیلیے سوال کھڑا کر رہی ہے۔ انہیں بھی شامل تفتیش کیا جائے گا۔