فائل فوٹو
فائل فوٹو

نیب ترامیم کیس پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا

اسلام آباد:نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف سپریم کورٹ میں انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5رکنی لارجربنچ  نے سماعت کی،جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ ، جسٹس حسن اظہر رضوی لارجر بنچ  کا حصہ ہیں،بانی پی ٹی آئی اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے۔

نیب ترامیم کیس میں جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ سیکشن 19اے فائیو میں ترمیم کو کس بنیادی حق کے متاثر ہونے پر کالعدم کیا گیا؟نیب کے قیام کا مقصد ہی سیاسی انجینئرنگ تھا،خواجہ حارث! آپ اپنے موکل کو مشکل میں ڈال رہے ہیں،نیب ترامیم کالعدم ہوئیں تو نقصان آپ کے موکل کا ہوگا، عمران خان اس وقت زیرعتاب ہیں،خواجہ حارث نے کہاکہ بانی پی ٹی آئی نیب سمیت دیگر مقدمات کا سامنا کررہے ہیں،مشکلات کے باوجود بانی پی ٹی آئی آج بھی ترامیم کا کیس لڑ رہے ہیں،بانی پی ٹی آئی جانتے تھے ترامیم کالعدم ہونے سے ان کیلئے مشکلات ہوں گی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ عمران خان کو اپنے اثاثے آمدن کے مطابق ثابت کرنے کا کہیں تو مشکل پڑ جائے گی،کیا یہ بلیک میلنگ نہیں کہ کسی کو بھی اثاثے آمدن کے مطابق ثابت کرنے کا کہیں؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ مجھ سے کوئی کہے اپنے گھر کی رسیدیں دو تو میں نہیں دے سکوں گا، جائز اثاثوں کا حساب دینا بھی ناممکن ہوتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اس وقت بحث چل رہی تھی کہ اختیار میرا ہے یا کسی اور کا،باہر جا کر بڑے شیر بنتے ہیں، سامنے آ کر کوئی بات نہیں کرتا،اصولی موقف میں سیاست نہیں ہونی چاہئے،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ سپریم کورٹ کے جج مانیٹرنگ جج تھے،اس کیس میں جے آئی ٹی تھی، جس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی جیسے طاقتور ادارے بھی تھے،جسٹس اطہر من اللہ نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ بتائیں اس کیس کا کیا بنا؟اس کیس میں آپ وکیل تھے،وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ طاقتور اداروں کی جے آئی ٹی میں شمولیت کے باوجود بھی کچھ ثابت نہ ہو سکا،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کسی نے گھر بنایا اس کے پاس رسید نہیں ہو گی، کیا رسید مانگنا بلیک میل کرنے کے مترادف نہیں؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ خواجہ صاحب کون کون سی نیب ترامیم کا چیلنج کیا تھا، وہ لکھوا دیں،آپ نے سیکشن 19اے فائیو میں ترمیم کو چیلنج کیاتھا،آپ نے سیکشن 14کے حذف کرنے کو چیلنج کیا تھا اور کیا تھا؟خواجہ حارث نے کہا کہ سیکشن 2میں ترامیم کا اطلاق ماضی سے کرنے کو چیلنج کیا تھا،سیکشن 4،16،21جی اور سیکشن 25ڈی میں ترمیم کو چیلنج کیا تھا،جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کون کون سی ترامیم کو کالعدم کیا گیا، بتادیں،خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں ترامیم کی تفصیلات لکھواد یں،

جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ سیکشن 19اے فائیو میں ترمیم کو کس بنیادی حق کے متاثر ہونے پر کالعدم کیا گیا؟نیب کے قیام کا مقصد ہی سیاسی انجینئرنگ تھا،خواجہ حارث! آپ اپنے موکل کو مشکل میں ڈال رہے ہیں،نیب ترامیم کالعدم ہوئیں تو نقصان آپ کے موکل کا ہوگا،عمران خان اس وقت زیرعتاب ہیں۔

خواجہ حارث نے کہاکہ بانی پی ٹی آئی نیب سمیت دیگر مقدمات کا سامنا کررہے ہیں،مشکلات کے باوجود بانی پی ٹی آئی آج بھی ترامیم کا کیس لڑ رہے ہیں،بانی پی ٹی آئی جانتے تھے ترامیم کالعدم ہونے سے ان کیلئے مشکلات ہوں گی،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ عمران خان کو اپنے اثاثے آمدن کے مطابق ثابت کرنے کا کہیں تو مشکل پڑ جائے گی،کیا یہ بلیک میلنگ نہیں کہ کسی کو بھی اثاثے آمدن کے مطابق ثابت کرنے کا کہیں؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ مجھ سے کوئی کہے اپنے گھر کی رسیدیں دو تو میں نہیں دے سکوں گا، جائز اثاثوں کا حساب دینا بھی ناممکن ہوتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اگر پی سی او نہ ہوتا تو شاید تب پورا نیب قوانین اڑا دیا جاتا، وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے ایک لسٹ جمع کرائی جس میں بتایا گیا تھا کہ 2019 میں اس وقت کی حکومت نے نیب ترامیم کی تھیں، مخدوم علی خان کے مطابق وہ ترمیم کریں تو غلط اگر پی ٹی آئی کرے تو ٹھیک، آپ کو ہمیں دکھانا ہوگا ترامیم میں غیر آئینی کیا تھا؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین سے بتانا ہوگا ترامیم سے حقوق کیسے متاثر ہوئے؟ بلکہ ترامیم کے ذریعے تو نیب سے ڈریکونین اختیارات واپس لیے گئے، آپ کیوں چاہتے ہیں ہر معاملے پر کارروائی نیب ہی کرے ، اس پر اتنا اعتبار کیوں؟ پارلیمنٹ نے اثاثوں کی سیکشن کو صرف اسٹرکچر کیا ہے، وہ چاہتی تو اسے حذف بھی کر دیتی۔

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ نیب قانون اور اسے چلانے والوں میں فرق ہے، مجھے نیب پر اعتماد نہیں، میں تو قانون کی بات کررہا ہوں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے عدالتی فیصلے کے ذریعے پارلیمنٹ کے قانون میں ترمیم کی، ایک شخص آیا اس نے آئین کو روند کر نیب قانون بنادیا، میری خواہش ہے اگر مارشل لاء نا لگتا تو نیب قانون ہی نا ہوتا، اراکین پارلیمنٹ نیب سے جان چھڑانا چاہتے تھے، کیا ہم پارلیمنٹ کے قانون کو عدالتی فیصلے کے ذریعے ترمیم کرسکتے ہیں، کل پارلیمنٹ دوبارہ قانون بنالی تو کیا ہوگا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو مانیٹر نہیں کرسکتی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام سپریم ہے اس لئے پارلیمنٹ سپریم ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ پارلیمنٹ عوام کی امین ہے۔ چیف جسٹس نے تو پھر کیا پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنا درست تھا؟

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنا سیاسی فیصلہ تھا جو درست نہیں۔خواجہ حارث نے دلائل مکمل کیے جس پر عدالت نے سماعت میں مختصر وقفہ کردیا۔ وقفے کے بانی پی ٹی آئی خود دلائل دیں گے۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سماعت میں وقفہ کیا اور پھر دوبارہ سے سماعت شروع کی۔

دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو بانی پی ٹی آئی ویڈیولنک پر عدالت میں حاضر ہوئے جس پر چیف جسٹس نے اُن سے استفسار کیا کہ کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں، یہ سنتے ہی عمران خان نے بولنا شروع کیا اور کہا کہ میں کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔

انہوں نے چیف جسٹس سے مخاطب ہوکر پوچھا کہ ’کیا آپ بتا سکتے ہیں میں نے پوائنٹ اسکورنگ کی، آپ کے بیان سے لگتا ہے میں غیر ذمہ دار شخص ہوں کوئی غلط بات کردوں گا، میں ایسا کوئی خطرناک آدمی نہیں ہوں‘۔

اس پر چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اُس درخواست پر فیصلہ ہوچکا ہے اور ججز اپنے فیصلوں کی خود وضاحت نہیں کرتے، لہذا آپ صرف کیس پر رہیں اور بات کریں‘۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ خان صاحب آپ کو غیر ضروری ریلیف ملا ہے لہذا آپ صرف کیس پر بات کریں۔ جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے چئیرمین اور ممبران کا معاملہ ہائیکورٹ میں آیا تھا اور اس الیکشن کمشنر آپ نے خود لگایا تھا، 76 سالوں میں پارلیمنٹ کو نیچا دکھایا گیا۔

عمران خان نے کہا کہ نیب کے اختیارات کم ہوں تو میرے لئے اچھا ہوگا، لوگوں کے اربوں ڈالر کے اثاثے بیرون ممالک ہیں ان کا کیا ہوگا؟

اس بات پر جسٹس مندو خیل نے کہا کہ خان صاحب آپ جو باتیں کررہے ہیں مجھے خوفزدہ کررہی ہیں، حالات اتنے خطرناک ہیں تو اپنے ساتھی سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھ کر معاملات حل کریں، جب آگ لگی ہوتو یہ نہیں دیکھتے کہ پانی پاک ہے یا ناپاک، پہلے آپ آگ کو بجھائیں، اپنے گروپ کو لیڈ کریں، آپ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں ہم آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، خدانخواستہ اس ملک کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار ہم نہیں سیاستدان ہوں گے۔

عمران خان نے کہا کہ اس وقت ملک معاشی بحران کا شکار ہے، باہر سے ترسیلات زر آتی ہیں جبکہ اشرافیہ اپنا پیسہ ملک سے باہر بھیجتی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دو چیزوں کو مکس کررہے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہم سمجھتے ہیں آپ کا اس وقت جیل میں ہونا بدقسمتی ہے کیونکہ آپ ایک بڑی جماعت کے سربراہ ہیں آپ کے لاکھوں پیروکار ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے بولا کہ ہمارے ساتھ تو ظلم ہورہا ہے، ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لاء لگا ہوا ہے اور میری آخری امید سپریم کورٹ ہی ہے۔

جسٹس مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ ہمیں تو اصل گلہ ہی سیاستدانوں سے ہے، اگر ہم بھی خدانخواستہ فیل ہوگئے تو کیا ہوگا۔

دوران سماعت عمران خان نے جب سائفر کیس کا حوالہ دینے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے انہیں بات کرنے سے روکا اور کہا کہ  وہ مقدمات جو ہمارے سامنے آنے ہیں ان پر بات نہ کریں۔

عمران خان نے چیف جسٹس کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات درست ہے مجھے پارلیمنٹ جانا چاہئے تھا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ جاکر ملیں اور بیٹھ کر بات کریں، یہ دشمن نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ کے معاملے پر ہم نے صدر اور الیکشن کمیشن کو آپس میں بات کرنے کی ہدایت کی کیونکہ ہم سیاسی بات کرنا نہیں چاہتے تھے اور آپ کو روکنا بھی نہیں چاہتے تھے تاکہ کوئی اعتراض نہ ہو۔

چیف جسٹس نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’سیاستدان آپس میں مل کر بیٹھیں اور مسائل کو حل کریں‘۔ اس پر پی پی کے وکیل نے بتایا کہ پیپلزپارٹی ہر جماعت کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہے۔

چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ایمنسٹی اسکیم کیوں دی؟ اس پر عمران خان نے بتایا کہ ایمنسٹی اس لئے دی کہ معیشت بلیک تھی اسے ایک روٹ پر لانا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب نے دس ارب ڈالر کی ریکوری دکھائی جو غلط ہے، انہوں نے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ غلط دستاویزات دکھانے پر ہم آپ کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کیوں نا کریں جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب نے اپنے جواب میں لکھا کہ اُس نے ریکور کی گئی رقم اپنے پاس رکھی، کس طرح ایک سرکاری ادارہ ایک روپیہ بھی بھی اپنے پاس رکھ سکتا ہے؟ نیب کی بجٹ رپورٹ کہاں ہے؟۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے نیب کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے دس سال کے بجٹ کا ریکارڈ طلب کرلیا۔

ایک موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے بانی پی ٹی آئی کی گفتگو کے دوران ریمارکس دیے کہ پتہ نہیں آپ نے میرا اختلافی نوٹ پڑھا ہے یا نہیں، جس میں میں نے آپ کی حکومت کے تین سالوں کا حوالہ بھی دیا ہے۔

عمران خان کے جیل بھیجنے کے شکوے پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیاستدان جیلوں میں جاتے ہیں تو ان میں پختگی آتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ نیب کورٹ کیسے چلتی ہے یہ میں نے جیل میں دیکھ لیا۔

جسٹس امین الدین نے بانی پی ٹی آئی سے استفسار کیا کہ کون سی نیب ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم ہیں؟ جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ نیب کو کون ٹھیک کرے گا۔

عمران خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ 700ارب ڈالر غریبوں کے اشرافیہ لوٹ رہی ہے، پارلیمنٹ والوں نے تو خود کو بچانے کیلئے ترامیم کیں جبکہ توشہ خانہ کیس میں مجھے چودہ سال قید کی سزا ہوئی۔ اس پر جسٹس امین الدین نے عمران خان کو بات سے روکتے ہوئے کہا کہ آپ صرف متعلقہ کیس پر ہی بات کریں۔

بانی پی ٹی آئی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نیب کی جانب سے دو کروڑ کی گھڑی تین ارب کی بتائی گئی، نیب چئیرمین سپریم کورٹ کو لگانا چاہئے۔ اس پر جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ آپ پارلیمنٹ میں جاکر ترمیم کرلیں کیونکہ پارلیمنٹ ہی یہ کام کرسکتی ہے۔

عمراں خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ چئیرمین نیب کی تقرری کا فیصلہ سیاستدانوں کی بجائے تھرڈ ایمپائر کرتا ہے، برطانیہ میں مورل اتھارٹی اور عوامی نمائندوں کا احتساب ہے، فارم 45 والی پارلیمنٹ ہی یہ کام کرسکتی ہے۔ اس پر جسٹس جمال مندو خیل نے بانی پی ٹی آئی کو روکتے ہوئے کہا کہ وہ بات نہ کریں جو کیسز عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ مجھے جیل میں دی گئی سہولیات اور جو نواز شریف کو سہولیات دی گئی تھیں انکا موازنہ کروا لیں۔ اس پر جسٹس مندو خیل نے کہا کہ نواز شریف تو اس وقت جیل میں نہیں جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جوڈیشل افسر سے سرپرائیزنگ وزٹ کروا لیں گے۔

دلائل ختم ہونے کے بعد چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی سے معاونت پر اُن کا شکریہ ادا کیا جبکہ جواب میں عمران خان نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا شکریہ ادا کیا۔