اقبال اعوان :
کھلے سمندر میں شکار پر پابندی کے دنوں میں کراچی کے ماہی گیروں کو متبادل روزگار ملنے لگا ہے۔ جیلی فش شکار کا سیزن ان کے لیے بڑا سہارا بنا ہے۔ مئی سے ستمبر تک بڑی تعداد میں جیلی فش کراچی کے ساحلوں پر آتی ہیں۔ کراچی میں غیر ملکی ریستورانوں، بڑے ہوٹلوں کے علاوہ بیرون ملک بھی بھیجی جاتی ہیں۔ چائنا اس کی مرکزی منڈی ہے۔ پاکستان کی سی فوڈز فیکٹریاں، جیلی فش بھی چائنا بھیجتی ہیں۔ جہاں سے دنیا بھر میں بھیجی جاتی ہے۔ مچھلی اور جھینگے کے علاوہ سیپیاں اور کیکڑے جہاں اضافی اجرت دلاتے ہیں۔ وہیں جیلی فش سے بھی ماہی گیروں کو اضافی رقم ملتی ہے۔ کراچی سے بلوچستان اور ٹھٹھہ، بدین کے ساحل کے قریب زیادہ آتی ہیں۔ سمندر میں اکثر اوقات چھتری نما سفید غبارے کی طرح جیلی فش نظر آتی ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ اس میں 92 فیصد پانی ہوتا ہے اور باقی جھلی نما فش رہ جاتی ہے۔ یہ آنکھوں، نظام ہاضمہ اور دماغ سے محروم ہوتی ہے۔ جبکہ دیگر مچھلیوں والے خواص بھی نہیں پائے جاتے۔ اکثر اوقات یہ ساحل پر مردہ حالت میں بڑی تعداد میں آجاتی ہیں اور سفید باریک جھلی کی صورت میں نظر آتی ہے۔ ماہی گیر ان کو پکڑ کر ٹوکریوں میں ڈال کر لاتے ہیں اور سی فوڈز فیکٹری والوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ جو لوہے یا پلاسٹک کے بڑے بڑے کڑہائو میں نمک اور کیمیکل کا پانی بنا کر جیلی فش کو اس میں رکھتے ہیں کہ پانی نکلنے کے بعد وزن کم ہو جاتا ہے اور اس طرح پانی میں ڈالنے سے وزن دوبارہ 45 فیصد بڑھ جاتا ہے۔
دنیا میں اس کی 85 سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔ جبکہ پاکستان کے ساحل پر اس کی 50 کے قریب اقسام آتی ہیں۔ جیلی فش کو آکسیجن کی ضرورت نہیں ہوتی اور گندگی و آلودگی میں بھی زندہ رہتی ہے۔ اوپر سے چھتری نما ہوتی ہے اور نیچے دھاگے کی طرح کانٹے نما لڑیاں ہوتی ہیں۔ جن سے جھینگے اور چھوٹی مچھلیاں شکار کر کے کھاتی ہے۔ اگر کاٹ لے تو جلن اور درد ہے۔ ماہی گیر جمال کا کہنا تھا کہ، بڑی جیلی فش ایک سے ڈیڑھ کلو وزنی ہوتی ہے اور اگر پانی نکل جائے تو جھلی نما کیڑے جتنا وزن رہ جاتا ہے۔ یہ انسانی جان کیلئے خطرہ نہیں ہے۔ بلکہ مئی سے ستمبر تک سیزن کے دوران اضافی دیہاڑی بننے کا سبب بنتی ہے۔ یہ ساحل سمندر سے ایک کلو میٹر تک آجاتی ہیں۔
ماہی گیر اکرام کا کہنا تھا کہ یہ منفرد آبی مخلوق ہے اور مچھلی کی اقسام میں شمار ہوتی ہے کہ قدیم آبی مخلوق ہے۔ سطح سمندر سے تہہ تک سفر کرتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ساحل کے قریب جانے والے یا شکار سے واپس آنے والے ماہی گیر اس کا شکار کرتے ہیں۔ چند سال قبل کورونا کی وجہ سے اس کے شکار کا سیزن برباد ہوا تھا۔ لانچ مالک فرید کا کہنا تھا کہ مچھلی، جھینگے کے شکار پر پابندی بھی لگ جائے تو ساحل پر غریب ماہی گیر گزارے کیلئے تھوڑا بہت شکار کر لیتے ہیں۔
ماہی گیر عبدالسلام کا کہنا تھا کہ جیلی فش کی چائنا میں مرکزی مارکیٹ ہے اور سی فوڈز فیکٹری والے سارا مال ادھر اسپیشل کنٹینر سے بھجواتے ہیں۔ کراچی سے ٹھٹھہ تک اس کی آمد شروع ہو چکی ہے۔ جیلی فش کو شکار کر کے ٹوکریوں میں ڈال کر برف کے قریب رکھتے ہیں کہ گرمی کی شدت سے پانی نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرح اس کے مرنے کی صورت میں جھلی نما رہ جاتی ہے اور اجرت کم ملتی ہے۔ بڑی لانچ والے سیکڑوں کی تعداد میں جیلی فش پکڑتے ہیں اور چھوٹی کشتیوں والے ساحل کے قریب باقاعدہ شکار کرنے جاتے ہیں۔ ان کی تعداد ہزاروں میں نظر آتی ہے۔ اس کا بھائو فکس نہیں ہے۔
البتہ جب شکار کر کے لاتے ہیں تو سی فوڈز فیکٹری والے موقع پر رقم ادا کر دیتے ہیں یا ابراہیم حیدری کراچی فش ہاربر پر فوری طور پر نیلامی کر دی جاتی ہے۔ ماہی گیر مبارک کا کہنا تھا کہ چند سال قبل تک مچھلی یا جھینگا شکار ہوتا تھا۔ اب کئی اقسام کی آبی مخلوق پکڑی جاتی ہے۔ بڑی جیلی فش کے 100 روپے اور چھوٹی کے 50 روپے ملتے ہیں۔ کراچی میں چائنیز، کوریا، تھائی لینڈ کے ریستورانوں اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں غیر ملکی شوق سے کھاتے ہیں۔ لہٰذا ان کو سپلائی کیا جاتا ہے۔