اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نئے ٹریبونل کو کام سے روک دیا۔ عدالت نے اسلام آباد کے الیکشن ٹربیونل تبدیلی پر برہمی کا اظہار ریمارکس دیے کہ الیکشن ٹربیونل کیوں تبدیل کیا، الیکشن کمیشن کو جوابدہ ہونا ہے، اگر تعصب ہے تو بتائیں ورنہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست نہیں، تعصب ثابت کریں یا پھرتوہینِ عدالت کی کارروائی کا سامنا کریں۔
منگل کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار شعیب شاہین، عامر مغل اور علی بخاری کی ٹریبونل کی تبدیلی کے سیکشن کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے درخواست پر سماعت کے دوران استفسار کیا کہ ٹریبونل سے متعلق نوٹیفکیشن کسی کے پاس نہیں تو میڈیا کے پاس کہاں سے آیا؟ میڈیا رپورٹس کے مطابق دو ٹریبونلز آپ نے بنائے ہیں ایک بہاولپور اور ایک راولپنڈی کے لیے، جن گراؤنڈز کے اوپر اپ نے تبدیلی کی ہے اس پر عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ اس طرح کی چیزوں سے آپ نیا پریسیڈنٹ بنانے جارہے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن ٹریبونل جج کی تبادلے سے متعلق ریکارڈ 2 بجے تک طلب کرلیا۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ میں ان درخواستوں کو دو بجے سنوں گا، اگر میں نے جج نامزد کیا ہے تو یقین اور بھروسے کے ساتھ کیا ہے ناں۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو ہدایت دی کہ درخواست گزاروں کو فیصلے کی سرٹیفائیڈ کاپیاں بھی دے دیں اور نئے ٹریبونل کا نوٹیفیکیشن بھی لے آئیں۔
بعد ازاں سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ ہم نے درخواست دائر کر دی ہے اس پر اعتراض لگا ہے، چیف جسٹس نے ڈی جی لا الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ آپ تو اتنے سینئیر وکیل ہیں آپ کے ہوتے ہوئے ایسے فیصلے کیسے آ گئے، آپ نے جو ٹریبونل تبدیل کیا ہے وہ کس بنیاد پر کیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بات یہ ہے کہ آپ ایک نئی جیوریکڈیکشن بنانے جا رہے ہیں، آپ کو اگر پروسیجر سے مسئلہ تھا اس کو عدالت میں چیلنج کرتے، ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم عدالت کی معاونت کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی معاونت کی ضرورت نہیں، فیصل چوہدری نے کہا کہ الیکشن کمیشن جو چاہے وہ نہیں کر سکتا الیکشن کمیشن نے قانون کے مطابق کام کرنا ہے، اسی عدالت کے سیکڑوں فیصلے موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے ڈی جی لا سے استفسار کیا کہ آپ سینئر آدمی ہیں، یہ بتائیں جب فیصلہ جاری نہیں ہوا اور آپ ریکارڈ واپس مانگ رہے ہیں یہ کیسے کیا، ٹرانسفر کرنے کا اختیار کرنے آپ کے پاس ہے لیکن آپ نے ریکارڈ واپس منگوا لیا تا کہ جج سن نہ سکے۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ جو درخواست گزار گئے، یہ ان کا کام ہے، آپ کا کام نہیں یہ، سوچ سمجھ کر بحث کیجیے گا، جو ڈیفڈ کرسکتے ہیں، وہی ڈیفنڈ کریں، مجھے ان کے اختیارات کا بھی پتہ ہے اور اپنے اختیارات کا بھی پتہ ہے۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ پاؤں پر کلہاڑی مارنی ہے تو بتائیں؟ میں ابھی فیصلہ معطل کر کے ریکارڈ واپس منگوا کر ٹریبونل بحال کر دیتا ہوں۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ جو مقصد آپ حاصل کرنا چاہ رہے ہیں وہ میں نہیں ہونے دوں گا، سوچ سمجھ کر بحث کریئے گا،کوئی اختیار نہیں تھا فائل منگوائی جائے۔
عدالت نے کہا کہ ٹرانسفر اتھارٹی آپکے پاس ہے مگر آپ ریکارڈ کیسے منگوا رہے ہیں، آپ نے تینوں کیسز کا ریکارڈ منگوا لیا ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ کس بنیاد پر آپ نے ٹربیونل کا ٹرانسفر کیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن سومو ٹو پاور کے تحت یہ اختیار استعمال نہیں کر سکتا۔
عدالت نے کہا کہ یہ اختیار استعمال کرنے کے لیے آپ کے پاس کوئی درخواست آنی چاہئے تھی، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آرڈر کرنے سے پہلے الیکشن ٹریبیونل سے ریکارڈ کیسے منگوا لیا؟ ہمارے پاس روزانہ ٹرانسفر کی درخواستیں آتی ہیں ہم تو ریکارڈ نہیں منگواتے، آپ نے ریکارڈ واپس منگوا لیا تاکہ ٹریبیونل کارروائی آگے نہ بڑھا سکے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ یہ رویہ ناقابلِ برداشت ہے، جس نے درخواست دی اس کا کام تھا کہ ریکارڈ وہ ساتھ لگاتا، الیکشن کمیشن نے سارا کچھ کرنا ہے انہوں نے خود کچھ نہیں کرنا، الیکشن کمیشن کے پاس ٹریبیونل تبدیلی کا اختیار ہے لیکن گراؤنڈ کیا ہے، الیکشن کمیشن کے پاس سوموٹو کارروائی کا اختیار نہیں ہے۔
ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے کہا کہ 7 دنوں میں جواب جمع کرانا ہوتا ہے انہوں نے تین سے زائد سماعتیں لی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فریقین کا کام تھا جواب جمع کرنا کیوں نہیں کرایا؟ شعیب شاہین نے کہا کہ اپلیٹ ٹریبونل جج نے تو ایسا کوئی آرڈر جاری ہی نہیں کیا تھا، اپلیٹ ٹریبونل نے انکو کئی مواقع دئیے ان سے جواب مانگا مگر انہوں نے جواب جمع نہیں کرایا۔
شعیب شاہین نے استدلال کیا کہ اپلیٹ ٹریبونل نے تو ان سے فارم 45 اور بیان حلفی جمع کرنے کا کہا تھا، الیکشن ٹریبونل کے نوٹسسز پر انہوں نے جواب ہی جمع نہیں کرایا، وکیل راجہ خرم نواز نے کہا کہ ہم نے جواب جمع کرایا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے تو کہا ہےکہ آپ کو سننے کا موقع نہیں دیا گیا تو پھر جواب کیسے جمع کرایا گیا؟ شعیب شاہین نے کہا کہ پہلا اعتراض یہ کیا گیا کہ ٹریبونل کے جج معتصب ہیں ، ہم ہر اعتراض تھا کہ یہ وکیل ہیں انکو فیور ملے گی۔
شعیب شاہین نے مختلف عدالتی نظیروں کے حوالے دیے اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ٹرائل آگے ہونا ہے، ایشوز فریم ہونے ہیں، اپلیٹ ٹریبونل نے کہا تھا کہ جس نے بھی غلط بیان حلفی دیا تو جیل بھیج دوں گا، اپلیٹ ٹریبونل کے اس آرڈر سے یہ ڈر کر بھاگ گئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا میں ٹریبونل کو ہدایت دے سکتا ہوں کہ وہ فائنل آرڈر نہ کرے ، شعیب شاہین نے کہا کہ آپ آئینی عہدے پر فائز ہیں، اگے چھٹیاں ہیں، انہوں نے جواب دینا ہے پھر ٹرائل شروع ہونا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا کیا کہہ دیا جس سے یہ ڈر گئے، شعیب شاہین نے کہا کہ ٹریبونل نے کہا تھا کہ جس نے بھی غلط بیان حلفی دیا تو جیل بھیج دوں گا، اپلیٹ ٹریبونل کے اس آرڈر سے یہ ڈر کر بھاگ گئے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواست گزاروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنے کا عندیہ دیا، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر میرے جج پر الزامات لگائے گئے تو عدالت اس کو سیریس لے گی، جنہوں نے یہ جج کے معتصب الزام لگایا ہے میں اس کو توہین عدالت کا نوٹس نہ جاری کروں؟ خدا کا خوف کریں آپ ہائی کورٹ کے جج پر الزام لگایا ہے کہ جج نیپوٹزم کرتا ہے۔
عدالت نے انجم عقیل خان کو اگلی سماعت پر ذاتی احثیت میں طلب کر لیا، چیف جسٹس نے کہا کہ اپنے فائدے کے لیے ان کو کسی کی کوئی پرواہ نہیں ، الیکشن کمیشن نے اس الزام میں کیسز ٹرانسفر کر دیا، ہائی کورٹ کے جج کے حوالے ایسے زبان کا استعمال کرنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر جج پر لگائے گئے الزامات غلط ہوئے تو وہ جیل جائے گا اور پانچ سال کے لیے نااہل بھی ہوگا، انہوں نے الزامات لگائے اور الیکشن کمیشن نے آرڈر بھی جاری کردیا۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت عالیہ نے الیکشن کمیشن کے نئے ٹریبونل کو کام سے روکتے ہوئے سماعت 24 جون تک ملتوی کردی۔