سوات میں ہجوم کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کا الزام لگا کرزندہ جلائے جانے والے شخص کو قتل کرنے کے ایک دن بعد پولیس نے جمعہ کو واقعے کی ایف آئی آر درج کر لی۔
پولیس کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق قتل کیے گئے شخص کے خاندان نے خود کو گستاخی کے ملزم اور اس کے مبینہ فعل سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ ملزم جس کی لاش کو ہجوم نے آگ لگا دی تھی کے بارے میں نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔
جمعرات کی رات سوات کے علاقے مدین میں ایک پولیس اسٹیشن، ڈی ایس پی آفس اور کم از کم پانچ گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی تھی۔ پرتشدد ہجوم نے ملزم کو پولیس کی حراست سے چھین کر مار دیا تھا۔ اس کی جلتی لاش کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھیں۔
جمعہ کے روز تھانے میں تباہی کے مناظر واضح تھے۔ ایک ویڈیو میں پولیس موبائل، پولیس کی دو موٹرسائیکلوں اور دو کاروں کی جلی ہوئی باقیات دکھائی دیں جو تھانے کے صحن میں بکھری ہوئی تھیں۔
ملزم کے بارے میں مزید تفصیلات جمعہ کو سامنے آئیں۔ اس شخص کی شناخت’’ س‘‘ کے نام سے ہوئی ہے جو سیالکوٹ شہر کا رہائشی تھا۔ اس کی عمر 40 سال کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے اور پولیس کے مطابق وہ 18 جون سے وادی سوات کے مدین میں ایک ہوٹل میں اکیلا رہ رہا تھا۔
سوات کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ڈاکٹر زاہد اللہ نے بتایا کہ’’س‘‘ کی والدہ نے پولیس کو ایک ویڈیو بیان جاری کیا جس میں انہوں نے اپنے بیٹے سے خود کو الگ کیا، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ملزم کی زندگی کا ایک بڑا حصہ ملائیشیا میں گزرا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے والد کا انتقال 30 سال پہلے ہو گیا تھا، وہ ملائیشیا میں تھا۔ جب واپس آیا تو ہم نے اس کی شادی کر دی۔ وہ ہمارے ساتھ لڑتا رہا اور پھر ڈیڑھ سال پہلے چلا گیا۔“
سوات پولیس کے پاس جولائی 2022 میں سیالکوٹ سٹی تھانے میں درج کی گئی ایف آئی آر کی کاپی بھی ہے۔ ماں کی طرف سے درج ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ س* نے اپنے بھائی اور ماں پر آہنی راڈ اور پستول کے بٹ سے حملہ کیا۔ 2022 کی ایف آئی آر میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ’’س‘‘ منشیات کا عادی تھا اور خاندان کے افراد کو دھمکیاں دے رہا تھا۔
خاندان نے پولیس کو ایک اخباری تراشہ بھی فراہم کیا جس میں ایک عاق نامے کا اشتہار موجود ہے۔ اس اشتہار میں ماں نے س سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔