میں تو بار بار بول کے تھک گیا ہوں کہ پی ٹی آئی ہمارے سامنے کیوں نہیں آئی، فائل فوٹو
میں تو بار بار بول کے تھک گیا ہوں کہ پی ٹی آئی ہمارے سامنے کیوں نہیں آئی، فائل فوٹو

مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پرہی دی جا سکتی ہیں، سپریم کورٹ

اسلام آباد:مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی درخواستوں پر سپریم کورٹ کے فل بنچ کی سماعت کے دوران جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ متناسب نمائندگی کے اُصول سے ہٹ کر نشستیں نہیں دی جا سکتیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل بنچ مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی جانب سے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کر رہا ہے۔

سماعت کے آغاز پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دریافت کیا کہ عدالت نے کچھ سوالات پوچھے، ابھی دلائل دوں یا جواب الجواب میں؟

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ چھوٹے دلائل ہیں تو ابھی دے دیں، وکیل نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی میں چیئرمین حامد رضا کی سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر ہوتی ہے، سنی اتحاد کونسل کا نشان نہ ملنے پر چیئرمین نے بطور آزادامیدوار انتخابات لڑے، جمعیت علمائے اسلام (ف) میں بھی اقلیتیوں کو ممبر شپ نہیں دی جاتی۔

وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ مخصوص نشستیں ملنے پر کنول شوزب ہماری امیدوار ہوں گی، عدالت نے صاحبزادہ حامد رضا کے کاغذات نامزدگی کا پوچھا تھا، کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے وابستگی سنی اتحاد کونسل سے ہی دکھائی تھی، غیر مسلم ممبر نہ رکھنے والی شق جے یو آئی کے منشور میں بھی ہے، لیکن پھر بھی مخصوص نشتیں ملیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ہوا میں بات کی، ایسے بیان نہیں دے سکتے، آپ دستاویزات دیں، فیصل صدیقی نے بتایا کہ میں دستاویزات بھی دوں گا، الیکشن کمیشن بھی کنفرم کردےگا۔

اس پر جسٹس منیب  نے دریافت کیا کہ کیا کاغذات نامزدگی کے ساتھ پارٹی ٹکٹ جمع کرایا گیا تھا؟ وکیل نے جواب دیا کہ پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے سے حامد رضا کو روکا جا رہا تھا الیکشن کمیشن نے زبردستی آزاد امیدوار کا نشان الاٹ کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیصل صدیقی صاحب اگر آپ نے کاغذات فائل کیے ہوتے تو سوالات نہیں پوچھنے پڑتے، کاغذات کے بغیر آپ کو بات نہیں کرنے دیں گے۔

وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی کا ریکارڈ الیکشن کمیشن سے مانگا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے چیئرمین سنی اتحاد کونسل حامد رضا کے کاغذات نامزدگی پیش کر دیے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہدایت کی کہ حامد رضا کے کاغذات نامزدگی کی کاپیاں کروا کر تمام ججز کو دیں۔

 وکیل مخدوم علی خان کے دلائل کا آغاز

مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ الیکشن پروگرام الیکشن ایکٹ کے تحت جاری کیاگیا، کاغذات نامزدگی تاریخ سے قبل جمع کروانا ضروری ہوتا، تاریخ میں توسیع بھی کی گئی، 24 دسمبر تک مخصوص نشستوں کی لسٹ کی تاریخ جاری کی گئی، الیکشن کمیشن کنفرم کرےگا، سنی اتحاد نے مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ جمع نہیں کروائی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے دریافت کیا کہ سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کرنے کا نوٹیفکیشن کب جاری ہوا؟ مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کے وکیل نے بتایا کہ اس سوال کا جواب الیکشن کمیشن بہتر دے سکتا ہے، سپریم کورٹ نے حکم امتناع دیا تو اضافی مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کی رکنیت معطل ہوگئی، انتخابات سے پہلے مخصوص نشستوں کی فہرست جمع کرانے والے ہی بعد میں دعویٰ کر سکتے ہیں۔

بعد ازاں وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حیران کن بات ہے کہ سلمان اکرم راجا اور فیصل صدیقی نے پشاور ہائی کورٹ کی بات ہی نہیں کی، دونوں وکلا نے صرف الیکشن کمیشن کے فیصلے کی بات کی۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کے سامنے سوال آرٹیکل 51 کی تشریح کا ہے، الیکشن ایکٹ سیکشن 206 کے مطابق سیاسی جماعتوں کو شفاف طریقہ کار سے نشستوں کے لیے لسٹ دینی ہوتی، سنی اتحاد کی طرف سے کسی امیدوار نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا جس کی وجہ سے خواتین کی لسٹ موجود نہیں اور جمع نہیں کرائی گئی، جمع کروائی گئی لسٹ تبدیل نہیں کی جاسکتی، الیکشن کمیشن کنفرم کردےگا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پانچ رکنی پشاور ہائیکورٹ کے بنچ نے دونوں کیسز میں سنی اتحاد کے خلاف فیصلہ دیا، سنی اتحاد نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ آزادامیدوار شامل ہوئے ہیں.

وکیل مخدوم علی خان نے الیکشن ایکٹ کے مختلف سیکشنز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستیں حاصل کی گئی جنرل سیٹوں پر انحصار کرتی ہیں، آزادامیدوار تین دنوں کے اندر کسی جماعت میں شامل ہوں تو مخصوص نشستوں کے لیے گنا جائےگا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا ہےکہ کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد سے وابستگی ظاہر کی، اگر یہ بات درست ہوئی تو سنی اتحاد کونسل کی پارلیمان میں جنرل نشست ہوگی، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وابستگی کےلیے پارٹی ٹکٹ کا ہونا ضروری ہے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ فی الحال حامد رضا کا خط ریکارڈ پر موجود ہے کہ انہوں نے سنی اتحاد کے نشان پر کوئی الیکشن نہیں لڑا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابی نشان کا پارٹی کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے سے تعلق نہیں۔

حامد رضا کو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے سے کیوں روکا گیا؟ جسٹس عائشہ ملک

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ حامد رضا کو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے سے کیوں روکا گیا؟ الیکشن کمیشن اس معاملے کی تصدیق کرے تو کیس نیا رخ اختیار کر سکتا ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان موجود تھا لیکن کسی نے اس پر الیکشن نہیں لڑا، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اپیلوں میں سنی اتحاد نے یہ نکتہ بھی نہیں اٹھایا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون واضح ہے کہ جو نکات اپیلوں میں اٹھائے گئے ہیں انہی تک محدود رہیں گے، ججز کا کام کسی فریق کا کیس بنانا یا بگاڑنا نہیں ہوتا۔

وکیل مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ متناسب نمائندگی کا اصول جنرل سیٹوں کی تعداد کے مطابق ہوتا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی اور جے یو آئی سمیت دیگر جماعتوں کو مخصوص نشستیں دی گئیں، پی ٹی آئی امیدواروں کو مخصوص نشستیں دینے کیلئے الگ اصول اپنایا گیا، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی ارکان آزاد ہوکرسنی اتحاد کونسل میں چلے گئے، پی ٹی آئی کے دو ارکان نے الیکشن کمیشن کو کہا کہ ہمیں آزاد ڈکلیئر کیا جائے۔

الیکشن کمیشن کے پاس ارکان اسمبلی کو آزاد ڈکلیئر کرنے کا اختیار نہیں : جسٹس جمال

جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس تو ارکان اسمبلی کو آزاد ڈکلیئر کرنے کا اختیار نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ ووٹر کے حق کا تحفظ کرے، حقائق سب کو کھل کر بتانے چاہئیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ مخصوص نشستیں جمع کروائی گئی لسٹ کے مطابق ہوتی ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جنہوں نے خود کو کاغذات نامزدگی میں تحریک انصاف کا ظاہر کیا، انہیں الیکشن کمیشن نے آزادامیدوار کیسے کہا؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آزاد امیدواروں نے پہلے تحریک انصاف نظریاتی ظاہرکیا اور پھر کاغذات نامزدگی واپس لےلی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کیسے اخذ کیا کہ امیدوار تحریک انصاف کے نہیں بلکہ آزاد ہیں، جسٹس منصورعلی شاہ نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے کیسے آزاد امیدوار ظاہر کردیا؟ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ اہم سوال ہی یہ ہے، کسی امیدوار کے ساتھ زبردستی نہیں کی جاسکتی کہ نوٹیفیکیشن کے تین روز بعد اگر وہ کوئی اور جماعت میں شامل ہوجائے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہہ سکتے کہ امیدوار آزاد ہیں یا کسی پارٹی سے ہیں، الیکشن کمیشن نے صرف کاغذات میں امیدوار کی سیاسی جماعت سے وابستگی دیکھنی ہے۔

کسی امیدوار کو اختیار ہی نہیں وہ ایک پارٹی کا ڈیکلریشن دے کر دوسری میں چلا جائے: جسٹس جمال

جسٹس یحیی  آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ ایک پارٹی سے وابستگی کا ڈیکلریشن جمع کرانے والے بعد میں دوسری جماعت میں چلے گئے، اب ان امیدواروں کے بعد والے فیصلے کو دیکھا جانا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کسی امیدوار کو اختیار ہی نہیں وہ ایک پارٹی کا ڈیکلیریشن دے کر دوسری میں چلا جائے، میری نظر میں اس بات پر امیدوار نااہل بھی ہو سکتا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئینی ادارے الیکشن کمیشن نے ان لوگوں کو 2 فروری کے روز آزاد ڈیکلئیر کر دیا تھا، اس کے بعد ان امیدواروں کے پاس اور کوئی چوائس نہیں تھی، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس مندوخیل نے سوالات اٹھائے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مسئلہ مگر الیکشن کمیشن کے دو فروری کے آرڈر سے پیدا ہوا ہے، الیکشن کمیشن نے اس عدالت کے انتخابی نشان والے فیصلے کی غلط تشریح کی تھی، اس بات پر نتائج لوگ کیوں بھگتیں؟

چیف جسٹس نے کہاکہ پہلے دن سے کہہ رہا تحریک انصاف نے ایسا کیوں کیا؟ اپنی پارٹی میں رہنا چاہیے تھا، سنی اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا، ہم نے تو نہیں کہا کہ سنی اتحاد میں شامل ہوں، انتخابات کو سپریم کورٹ میں دیکھا جارہا۔

مؤقف پر قائم ہوں کہ پارٹی وابستگی ظاہر کرکے جماعت تبدیل کرنے والا نااہل تصور ہوگا: جسٹس جمال

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد کیسے ظاہرکیا؟ کسی سیاسی جماعت کی نہیں بلکہ الیکشن کے حوالے سے بات کررہے ، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اپنے مؤقف پر قائم ہوں کہ پارٹی وابستگی ظاہر کرکے جماعت تبدیل کرنے والا نااہل تصور ہوگا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ سارا معاملہ شروع ہی سیاسی جماعت کے امیدواروں کو آزاد قرار دینے سے ہوا، کیسے ممکن ہے کہ اس بنیادی سوال کو چھوڑ دیں، جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ سنی اتحاد کونسل اپنا کیس جیتے یا ہارے، دوسری جماعتوں کو اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اُصول پر ہی مل سکتی ہیں، متناسب نمائندگی کے اصول سے ہٹ کر نشستیں نہیں دی جا سکتیں، اضافی نشستیں لینے والے بتائیں کہ ان کا موقف کیا ہے؟ دیگر جماعتوں کو چھوڑیں۔

چیف جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ  کیا ہمیں آئین دوبارہ لکھنا شروع کر دینا چاہیے؟ آئین میں پہلے سے درج متناسب نمائندگی کا فارمولہ سمجھائیں! فارمولا کیا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی ممبر استعفیٰ دےدے یا انتقال کرجائے تو ایسا تو نہیں کہ پارلیمنٹ کام کرنا چھوڑ دےگی؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر کوئی جج ریٹائرڈ ہوجائے تو سپریم کورٹ کام کرنا تھوڑی چھوڑ دے گی؟ اگر کوئی ممبر نہیں یا نشست خالی ہے تو ضمنی انتخابات ہو جائیں گے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سنی اتحاد کو سیاسی جماعت ہی ٹریٹ کیاگیاتھا، تمام سیٹیں بانٹ دی گئی تھیں، ؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سوال ہی یہ ہے کہ آپ کو مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ تحریک انصاف ہمارے سامنے نہیں، تحریک انصاف تو سنی اتحاد کو سپورٹ کررہے، کیس ہمارا سنی اتحاد کا ہے، تحریک انصاف کا نہیں، خود سے نیا کیس نہ بنائیں، میں تو بار بار بول کے تھک گیا ہوں کہ پی ٹی آئی ہمارے سامنے کیوں نہیں آئی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتہائی احترام سے کہہ رہا ہوں آج آئین کی پاسداری نہیں ہو رہی، ہم آج ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیلئے جوابدہ ہوں گے، ہم بطور سپریم کورٹ آنکھیں بند نہیں کر سکتے ،لاپتہ افراد کے کیسز ہیں، بنیادی حقوق کی پامالیاں ہیں، یہ سب سیاسی مقدمات نہیں انسانی حقوق کا معاملہ ہے ہم سب ماضی کی بات کرتے ہیں آج کی کیوں نہیں؟ ہمیں کسی دن تو کہنا ہو گا بس بہت ہو گیا، میری نظر میں آج بھی سب سے اہم درخواست8 فروری کے انتخابات سے متعلق ہے، لاپتہ افراد کے کیسز اور بنیادی حقوق کی پامالیاں سیاسی کیسز نہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تاریخ بہترین استاد ہے ورنہ بار بار غلطیاں کی جاتی ہیں ، اپنی غلطیاں ہم سب کو تسلیم کرنی چاہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر 86 آزادامیدواروں سے آپ کو فائدہ ہوگا تو کس متناسب کے ساتھ ہوگا؟ کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کردیا گیا۔

وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کاآغاز

سپریم کورٹ مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت مختصر وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوگئی جس میں مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل جاری ہیں ۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہاکہ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کو انتخابات سے قبل مخصوص نشستوں کی لسٹ مہیا کرنا ہوتیں، جو سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ نہیں لے رہیں، ان پر مخصوص نشستوں کی لسٹ مہیا کرنا لازم نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہر انتخابات کو سیکرٹ بیلٹ کے تحت ہونا چاہیے، سیکرٹ بیلٹ کہاں ہے؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ووٹرز کو معلوم ہوتا ہے کہ ووٹ دینے والی جماعت کی مخصوص نشستوں کی لسٹ کیاہے، جس پر جسٹس منیب اخترنے کہاکہ ہم ججز اور الیکشن کمیشن بھی آئین کی پاسداری کا حلف لیتاہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ خواتین کی نمائندگی کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا، اقلیتوں اور خواتین کو نمائندگی دینا اصل مقصد ہے، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آئین میں ہر لفظ کو ایک معنی دینا ضروری ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین میں الیکشن میں منتخب ہونے کا لفظ لکھا ہے، صدر، سینٹ سب کے انتخابات کے لئے الگ الیکٹوریٹ دیاہوتاہے، کیس میں لگ رہا جیسے انتخابات ہو ہی نہیں رہے لیکن آپ کہہ رہے کہ الیکشن ہورہاہے، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جب کوئی سیاسی جماعت سیٹیں جیتے تو انتخابات میں جیت کا معلوم ہوتاہے، جیتنے والی سیاسی جماعتوں میں آزادامیدوار شامل ہوتے ہیں، جس سیاسی جماعت کے پاس سیٹ ہی نہیں وہاں آزادامیدوار شامل نہیں ہوسکتے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جس سیاسی جماعت کی مخصوص نشستوں کی لسٹ ہی نہیں تو الیکٹوریٹ پر عملدرآمد نہیں کیاجارہا، ایک سیاسی جماعت کے مینی فیسٹو میں اقلیتی شامل نہیں تو اقلیتوں کے لسٹ نہیں دی جائےگی، اگر خواتین یا اقلیتوں کی لسٹ نہیں دی گئی تو اثرات تو ہوں گے، اگر پرائز بانڈ خریدا ہی نہیں تو پرائز بانڈ نکل کیسے آئےگا، خریدنا تو ضروری ہےنا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہاکہ سیاسی جماعت اگر خواتین یا اقلیتی نشستوں کے لیے لسٹ نہیں دیتی تو کیا پارلیمنٹ میں سیٹ خالی رکھی جائےگی،انتخابات میں سیاسی جماعت ہی صرف سیٹ جیت سکتی ہے،جس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سیاسی جماعت کون ہیں؟ منتخب اراکین کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ مخصوص نشستوں کی لسٹ دینے والی سیاسی جماعت کہلاتی ہے،جس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یعنی جو لسٹ نہیں مہیا کرتی تو اسے سیاسی جماعت نہیں کہیں گے۔

مسئلہ ہے کہ کس حساب سے سیٹیں بانٹی جائیں گی: جسٹس عائشہ ملک

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر سیاسی جماعت نے انتخابات سے قبل لسٹ دی نہیں اور انتخابات کےبعددےرہےتو مزید غیر جمہوری ہوجائےگا، حالیہ انتخابات میں آزاد امیدواروں نے دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت سیٹیں زیادہ جیتیں،جس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ مجھے مسئلہ ہے کہ کس حساب سے سیٹیں بانٹی جائیں گی، قومی اسمبلی میں ن لیگ کو 17 اور بعد میں مزید 10 مخصوص نشستیں دی گئیں، آپ کہہ رہے اگرسنی اتحاد سیاسی جماعت رہتی تو 17 سیٹیں ہوتیں، اب جب نہیں تو 27 سیٹیں ن لیگ کی ہوگئیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ میں دو طریقہ کار سے سیٹیں بانٹی گئی ہیں، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آزادامیدوار نے ایسی سیاسی جماعت شامل ہونا ہوتا ہے جس نے کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہو۔

مخصوص نشستوں پرمنتخب اراکین کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا صرف یہی ضروری ہے کہ سیٹیں زیادہ ہوں یا انتخابات میں خواتین، اقلیتوں کی نمائندگی پر بات کرنا ضروری ہے، اقلیتی، خواتین کسی سیاسی جماعت میں ہیں یا نہیں لیکن ان کی نمائندگی کو محفوظ کرنا ہے، تاریخ پر بات کرنی چاہیے اور تاریخ سے سیکھنا چاہیے، اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر دو سیاسی جماعتیں ہیں تو انہیں میں مخصوص نشستیں بانٹ دی جائیں گی، حقیقت یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے نا لسٹ دی اور نا ہی انتخابات میں حصہ لیا، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ 2 فروری 2024 والا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ کی غلط تشریح پر ہے، کیا ہمیں الیکشن کمیشن کے غلط تشریح پر مبنی فیصلہ نہیں دیکھنا چاہیے یا نظر انداز کردینا چاہیے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ایک سیاسی جماعت ہے جو بہت مشہور ہے لیکن انتخابات سے بائیکاٹ کرلیتی ہے تو کیا عوام کی سپورٹ کے باوجود بائیکاٹ کرنے والی پارٹی کو مخصوص نشستیں ملیں گی؟ اسی کے ساتھ منتخب نشستیں حاصل کرنے والی جماعتوں کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوگئے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر کے دلائل شروع

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر روسٹرم پر آگئے، انہوں نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کا شیڈول ایک اہم دستاویز ہوتا ہے جس میں مخصوص اور جنرل سیٹیں شامل ہوتی ہیں، جنرل اور مخصوص نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی کے لیے ایک تاریخ دی جاتی، مخصوص نشستوں کابھی نوٹیفکیشن ہوتا ہے، فارم 33 جنرل اور مخصوص نشستوں کے لیے ہوتا ہے، ریٹرننگ افسران مخصوص، جنرل نشستوں کے فارم 33 کی سکروٹنی کرتے ہیں۔

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن فیصلہ کرے گا کہ امیدوار کی کس سیاسی جماعت سے وابستگی ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ فارم 66 مخصوص نشستوں کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے دی گئی لسٹ ہوتی، جنرل اور مخصوص نشستوں کی لسٹ کا طریقہ کار بالکل ایک طرح کا ہے، کاغذات نامزدگی پہلی سٹیج ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ خواتین، اقلیتوں کی سیٹوں کی اہمیت اتنی ہی ہے جتنی جنرل نشستوں کی ہے، خواتین کی مخصوص نشست والے وزیراعظم کے لیے بھی امیدوار ہوسکتے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ایسا ممکن ہو سکتا ہےکہ ایک ہی حلقے سے ایک ہی پارٹی کے دو امیدوار ہوں؟ کورنگ امیدوار ہوتے اس پر وکیل سکندربشیر نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں، پارٹی سربراہ اپنے آئین کے مطابق پارٹی ٹکٹ دیتاہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کا مطلب بلے کا نشان کے فیصلے سے سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کیا؟ وکیل سکندربشیر نے کہا کہ ایسا نہیں ہے، معذرت اگر ایسا سمجھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ فیصلے کو کم سے کم پڑھ لیں، فیصلہ نہیں بلکہ قانون ہے، آج انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروائے تو کل ہو سکتے ہیں، میں حیران تھا کہ تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کررہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیس کی سماعت میں تین بجے تک وقفہ کر دیا۔

وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کا آغاز

کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع کردی گئی ، الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر کے دلائل کا سلسلہ جاری ہے۔

چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجا کو دستاویزات جمع کروانے سے روک دیا، وکیل سلمان اکرم راجانے کہا کہ میں کنول شوزب سے متعلق چند دستاویزات جمع کروانا چاہتاہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نہیں لیں گے دستاویزات، ہم کیسز نہیں بناتے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت  کے حکم نامے کے مطابق سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی اور کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل مکمل کر لیے، سماعت   کے دوران  چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے۔

پشاور ہائی کورٹ نے انتخابات سے قبل فہرست جمع نہ کروانے پر سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کے حوالے سےالیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

کیس کا پس منظر

واضح رہے کہ 6 مئی سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔

3 مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔

4 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردیں تھی۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کیا ہے۔

چار ایک کی اکثریت سے جاری 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتی، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص  نشستیں متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔

الیکشن کمیشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جو یو آئی ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔

چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

بعد ازاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔