کراچی میں تاریخ کی گرم ترین رات میں بدترین لوڈشیڈنگ

کراچی(اُمت نیوز)گارڈن شو مارکیٹ اور اعتراف کے علاقوں میں بجلی کی عدم فراہمی پر مکینوں نے نشتر روڈ بلاک کر کے ٹائر جلائے اور کے الیکٹرک اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔

ڈسٹرکٹ سٹی پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر ٹوٹی پڑی ، پولیس نے ڈنڈے برسائے ، آنسو گیس کے شیل اور شدید ہوائی فائرنگ کی ، مشتعل مظاہرین نے پتھراؤ کر کے نجی بینک کے شیشے توڑ دیے ، پولیس نے متعدد مظاہرین کو حراست میں لے لیا ، گزشتہ ایک ماہ سے شہر کے بیشتر علاقوں میں جاری بجلی پانی کے احتجاج کے دوران پہلی مرتبہ پولیس افسران کے حکم پر مظاہرین پر طاقت کا استعمال دیکھنے میں آیا ہے ۔

اولڈ سٹی ایریا کے علاقے گارڈن شو مارکیٹ ، عثمان آباد ، گزدرآباد اور گارڈن پولیس لائن میں بجلی کے ستائے مکین اتوار اور پیر کی درمیانی شب تقریباً ایک بجے گھروں سے نکل کر نشتر روڈ پر پہنچ گئے اور احتجاجاً سڑک ٹریفک کے لیے بند کر دیا اسی دوران منچلے نوجوانوں نے پرانے ٹائر فروٹ کی پیٹیا اور دیگر کچرا سڑک پر رکھ کر آگ لگا دی۔

سڑک بلاک کرنے کی اطلاع پر گارڈن ، عیدگاہ اور نبی بخش تھانے کی پولیس موقع پر پہنچ گئی۔

مظاہرین نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دن بھر مجموعی طور پر 10 گھنٹے اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے باوجود رات بھر بجلی غائب رہتی ہے ، بجلی کی عدم فراہمی کے باعث کوئٹہ اسکوائر ، عثمان آباد ، گزدرآباد سمیت اعتراف کے علاقوں کی عمارتوں کے رہائشیوں نے میڈیا سے بات چیت کے دوران بتایا کہ چھوٹے چھوٹے فلیٹ بجلی کی عدم فراہمی پر دڑبے بن جاتے ہیں ایک دو گھنٹے تو کسی نہ کسی طرح برداشت کر لیے جاتے ہیں لیکن مسلسل 6 گھنٹے تک بجلی کی عدم فراہمی سے بچے تو بلبلا اٹھتے ہیں۔

مکینوں کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک ہیلپ پر متعدد بار شکایات درج کرائی گئیں تاہم کسی قسم کا تسلی بخش جواب نہیں ملا اور نہ ہی بجلی بحال کی گئی جس پر ہم گھروں میں بچوں کی چیخ و پکار سن کر سڑک پر نکلے ہیں حالانکہ صبح سات بجے اپنے کام پر جانا ہوتا۔

مکینوں کا کہنا تھا کہ دو کمروں کی فلیٹ کا بجلی کا بل 6 سے 9 ہزار روپے بھجیجا جا رہا حالانکہ 24 گھنٹوں میں مجموعی طور پر 16 گھنٹے بجلی کی فراہمی معطل رہتی ہے ، میڈیا پر احتجاج ، سڑک بلاک کر کے ٹائر جلانے ، کے الیکٹرک اور سندھ حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی خبر نشر ہونے کے کچھ ہی دیر بعد مظاہرین کی حاصلہ افزائی کرنے والی پولیس ان پر ٹوٹ پڑی۔

پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پہلے مادر پدر آزاد الفاظوں کا استعمال کیا اس کے بعد ڈنڈے برسائے اور پھر آنسوگیس کے کی شیل برسائے اور ہوائی فائرنگ کی ، پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ سے خوفزدہ مظٓاہرین منتشر ہوکر گلیوں میں چلے گئے۔

کچھ ہی دیر میں مشتعل نوجوان پتھر اور ڈنڈے لے کر گلیوں سے نکل آئے اور ایک نجی بینک شیشے توڑ دیے جبکہ دیگر املاک کو بھی نقصان پہنچایا جبکہ پولیس نے اور مظاہرین کے درمیان ہاتھا پائی بھی دیکھنے میں آئی جس پولیس اہلکار کے کپڑے بھی پھٹ گئے ، پولیس نے نصف درجن سے زائد مظاہرین کو حراست میں لے کر ڈسٹرکٹ سٹی کے مختلف تھانوں میں منتقل کیا ، رات ایک بجے سے شروع ہونے والی ہنگامہ آرائی کا سلسلہ صبح چار بجے تک جاری رہا۔

واضح رہے کراچی میں جب سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا شہر کے بشتر علاقوں میں بجلی کی فراہمی بھی تعطل کا شکار ہے ، تقریباً روزانہ شہر کے ایک درجن سے زائد علاقوں میں بجلی کی عدم فراہمی کے خلاف احتجاج کیے جا رہے ہیں تاہم کسی علاقے میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان کسی قسم کی چھڑپ دیکھنے میں نہیں آئی ، شہریوں کو مشتعل دیکھ کر پولیس سائیڈ میں کھڑی رہتے ہے۔

مظاہرین سڑک پر ٹائر وغیرہ جلانے اور نعرے بازی کر کے دو چار گھنٹے پر خود ہی متشر ہو جاتے ہیں جس کے بعد پولیس سڑک پر کھڑی کی گئی رکاوٹین اور جلے ہوئے ٹائر ایک طرف کر دیتے تاہم ڈسٹرکٹ سٹی پولیس مظاہرین سے زیادہ مشتعل نظر آئی جو شہریوں پر ایسے ٹوٹی جیسے حکومت مخالف سیاسی جماعت کے جلسے کو ختم کرانے کے لیے ٹوٹتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔