سنی اتحاد کی مخصوص نشستوں کا کیس: الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل جاری

اسلام آباد(اُمت نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل جاری ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فُل کورٹ کیس کی سماعت کررہا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں 30 منٹ میں دلائل ختم کر دوں گا، آج 4 نکات پر بات کروں گا، الیکشن ایکٹ کے تحت پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ اور فارم 66 ریکارڈ پر ہیں، تحریکِ انصاف نے پارٹی سے وابستگی کا سرٹیفکیٹ اور فارم 66 جاری کیے، پی ٹی آئی کے پارٹی وابستگی سرٹیفکیٹ اور فارم 66 پر چیئرمین گوہر علی خان نے دستخط کیے، وابستگی سرٹیفکیٹ اور فارم 66 جاری ہوئے تو پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے تھے، پی ٹی آئی نے 22 دسمبر کو فارم 66 اور پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ 13جنوری کو جاری کیے، پی ٹی آئی کو پارٹی سے وابستگی کا سرٹیفکیٹ کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ لگانا چاہیے تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ بتا دیں کہ پی ٹی آئی کے کاغذاتِ نامزدگی میں لکھا ہے کہ سرٹیفکیٹ منسلک ہیں؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے 23 دسمبر کو فیصلہ کیا، اس کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ بتائیں غلطی کہاں اور کس نے کی؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے جواب دیا کہ کاغذاتِ نامزدگی میں بلینک کا مطلب آزاد امیدوار ہے۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ سرٹیفکیٹ غلط ہیں کیونکہ تب تک چیئرمین منتخب نہیں ہوا تھا؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے جواب دیا کہ سرٹیفکیٹ جمع کراتے وقت جب چیئرمین منتخب نہیں ہوئے تو کاغذاتِ نامزدگی درست نہیں، حامد رضا نے 22 دسمبر کو کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے اور خود کو سنی اتحاد کونسل کا امیدوار کہا، حامد رضا نے کاغذاتِ نامزدگی میں بریکٹ میں لکھا کہ اتحاد تحریکِ انصاف سے ہے، حامد رضا نے پارٹی سے وابستگی کا سرٹیفکیٹ 13 جنوری کو جمع کرایا، کاغذاتِ نامزدگی میں حامد رضا نے تحریکِ انصاف کے ساتھ اتحاد ظاہر کیا، کاغذاتِ نامزدگی میں تحریکِ انصاف کے ساتھ اتحاد کا کیس نہیں ہے۔