اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدت کیس میں اپیل کا فیصلہ ایک ماہ میں کرنے کی ڈائریکشن پر نظرثانی کی درخواست خارج کر دی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے خاور مانیکا کی نظر ثانی درخواست خارج کرتے ہوئے سیشن کورٹ کو ایک ماہ کے اندر اپیلوں پر فیصلہ کرنے کا حکم برقرار رکھا ہے۔
عدت کیس اپیلوں پر 12 جولائی تک فیصلہ کرنے کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا گیا جبکہ عدالت نے ٹرائل کورٹ کو ایک ماہ میں فیصلہ کرنے والی ججمنٹ پرعمل درآمد کا حکم دے دیا۔
اس سے قبل آج صبح سماعت شروع ہوئی تو بیرسٹر سلمان صفدر کے معاون وکیل خالد یوسف چوہدری عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے استدعا کی کہ سلمان صفدر راستے میں ہیں، اس لیے سماعت میں وقفہ کر دیا جائے۔
جج افضل مجوکا نے کہا کہ ابھی تک ہائی کورٹ سے کوئی ہدایت نہیں آئی ہے۔
معاون وکیل نے کہا کہ جب تک ہائی کورٹ کی ہدایت نہیں آتی تب تک کیس کی سماعت نہیں ہونی چاہیے۔
عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا۔بیرسٹر سلمان صفدر کے آنے پر سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اب سب کلیئر ہو چکا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے واضح طور پر پرانی ٹائم لائن برقرار رکھی ہے۔
جج افضل مجوکا نے کہا کہ اس عدالت میں جو درخواست آئی ہے وہ معاملہ ابھی زیرِ التواء ہے، ہونا وہی ہے جو ہائی کورٹ چاہے گی۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اگر ان کی کوئی حقیقی وجہ ہوتی سماعت ملتوی کرنے کی تو ہم خود اس کی تائید کرتے، ان کے پاس درست راستہ یہ تھا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے، اسلام آباد ہائی کورٹ سے کوئی میسج آنا تھا تو وہ واضح طور پر آ گیا ہے، ان کی درخواست میں 10 دن کی غیر حاضری کا مؤقف اپنا کر چھٹی لی گئی، شکایت کنندہ کے پاس کسی اور کونسل کو کھڑا کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اب دو فیصلے آ چکے ہیں۔
جج افضل مجوکا نے کہا کہ مجھے آدھا گھنٹے کا وقت دیں، کیس ڈیڑھ بجے تک سن لیتے ہیں۔
خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف کے معاون وکیل نے کہا کہ نظرِ ثانی اور زیرِ التواء کی درخواستیں الگ الگ ہیں، جنرل التواء کی درخواست سیشن جج کی عدالت میں دی جاتی ہے۔
جج افضل مجوکا نے کہا کہ مجھے اسلام آباد ہائی کورٹ آفس سےکال آ گئی ہے کہ دو اپیلیں خارج کر دی گئی ہیں، مجھے کال پر کہا گیا کہ اس درخواست سے متعلق کچھ دیر میں آگاہ کیا جائے گا، ڈیڑھ بجے کا وقت رکھ لیتے ہیں۔
اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکلاء نے زاہد آصف ایڈووکیٹ کے معاون وکیل کے بولنے پر اعتراض کر دیا۔
خاور مانیکا کے معاون وکیل نے کہا کہ اس عدالت نے کل ہی بتایا تھا کہ اس التواء کی درخواست پر ہائی کورٹ کو آگاہ کر دیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی سیشن عدالت نے کیس کی سماعت میں ڈیڑھ بجے تک کا وقفہ کر دیا۔
وقفے کے بعد سماعت کرتے ہوئے عدالت نے خاور مانیکا کے وکیل کی التواء کی درخواست مسترد کر دی۔
ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکا نے سلمان صفدر سے کہا کہ آپ اپنے دلائل کا آغاز کریں ہم کیس سنیں گے۔
اس کے ساتھ ہی بیرسٹر سلمان صفدر نے اپنے دلائل کا آغاز کر دیا اور کہا کہ کچھ پوائنٹس پر عثمان ریاض گل اور کچھ پر خدیجہ صدیقی دلائل دیں گی، میں سب سے پہلے سیاسی انتقام سے متعلق بات کروں گا، بشریٰ بی بی بانیٔ پی ٹی آئی کی اہلیہ ہیں اور بانیٔ پی ٹی سابق وزیرِ اعظم ہیں، بشریٰ بی بی سابق وزیرِ اعظم کی اہلیہ ہونے کی وجہ سے سیاسی انتقام کا سامنا کر رہی ہیں، بانیٔ پی ٹی آئی کے خلاف جو انتقامی کارروائیاں ہوئیں ان میں یہ ایک اہم کیس ہے، بانیٔ پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ کیس سیریز میں چل رہے ہیں، سارے کیسز صرف اور صرف سیاسی انتقام کے علاوہ کچھ نہیں ہے، اس کیس کے علاوہ بانیٔ پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے خلاف کوئی بھی کیس نہیں ہے، خواتین کا معاملہ خواتین جانتی ہیں، میری استدعا ہے کہ کچھ خواتین باہر کھڑی ہیں انہیں اندر آنے کی اجازت دی جائے۔
جج افضل مجوکا نے کہا کہ میں نے کسی کو نہیں روکا ہوا، اگر کوئی ایسی بات ہے تو یہ انتظامیہ کے پاس اختیار ہے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ دلائل میں میرا دوسرا نقظہ عوامی تاثر ہے، عدت میں نکاح کو جرم میں شامل نہیں کیا جاتا ہے، پہلی بار کہنا چاہتا ہوں کہ سب مقدمات میں سے عدت والا کیس ہے جو بہت بیہودہ ہے، ہم نے دیکھا کہ ریکوری کیسز میں ملزم کی جگہ بھائی، باپ وغیرہ کو اٹھا لیا جاتا ہے، جس کا مقصد صرف اور صرف جذباتی اور اخلاقی طور پر کمزور کرنا ہوتا ہے، سگریٹ کے آخری کش کو فیگ اینڈ کہتے ہیں، بانیٔ پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی رہائی بھی فیگ اینڈ پر ہے، بانیٔ پی ٹی آئی کے خلاف انتقام کی سب سے بڑی مثال عدت میں نکاح کیس ہے، بشریٰ بی بی نے بیان میں لکھا کہ رات پونے 10 بجے 342 کا بیان کیوں ریکارڈ کیا جا رہا ہے، جب سزا دلوانی ہو تو رات کے وقت بھی عدالت لگی رہی، اب 10، 10 دن دور بھاگا جا رہا ہے، خاص طور پر اس کیس میں قانون کا مذاق اڑایا گیا ہے، ملک میں شادی اور طلاق روزانہ کی بنیاد پر ہوتی ہے مگر ایسا کیس کبھی بھی نہیں آیا، اجمل قصاب، بے نظیر کیس، ممتاز قادری کیس جیل میں ہوتے رہے مگر ایسا کیس کبھی نہیں دیکھا، میاں بیوی کا کیس اگر تھانے میں بھی آ جائے تو اسے ذاتی طور پر حل کرنے کا کہہ دیا جاتا ہے، مگر ٹرائل کرنے والے جج صاحب نے رات گئے تک عدالت لگائے رکھی، ایسے کیسز میں پراسیکیوشن نے صرف ملکی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے، سابق وزیرِ اعظم کے خلاف سب سے پہلے کرپشن ڈھونڈی جاتی ہے۔
سابق وزیرِ اعظم کے خلاف کرپشن نہیں ملتی تو ایسے کیس کی طرف آتے ہیں، یہ تسلی تو ہے کہ بانیٔ پی ٹی آئی کے خلاف کوئی بھی دوسری کرپشن وغیرہ نہیں ملی، جج صاحب اڈیالہ جیل ایک خاتون کی عدت کا دورانیہ سننے چلے گئے، جج صاحب ایک پرائیویٹ شکایت سننے چلے گئے، اس میں ایسا کیا تھا؟ پاکستان کی تاریخ میں سب سے مہنگی پراسیکیوشن بانیٔ پی ٹی آئی کے خلاف تھی، سائفر کیس کا بجٹ دیکھیں نتیجہ کیا نکلا؟ عدت میں نکاح کیس اس چیز کی دلیل ہے کہ کوئی اور جرم نہیں بنا تو اسے جرم بنایا گیا، پہلی شکایت حنیف نے کی، اس کے بعد خاور مانیکا نے شکایت درج کرائی، دونوں شکایات میں محمد حنیف اور خاور مانیکا کے وکیل اور گواہ ایک ہی تھے، جرح میں 2 گواہان نے اس چیز کو قبول بھی کیا کہ وہ پہلے والی درخواست میں بھی تھے، شکایت میں سیکشن 496 اور 496 بی کا ذکر کیا گیا، آدھا الزام 496 بی کی وجہ سے جھوٹا ثابت ہو جاتا ہے، سیکشن 496 کے تحت سزا غلط دی گئی ہے، اپیل کیوں سننی ہے جب جرم ہی نہیں لگتا؟ فراڈ اور دھوکا ہو جائے تو میاں بیوی میں سے ایک ملزم اور ایک مدعی ہو گا، اس کیس میں میاں بیوی دونوں ملزم بنے ہوئے ہیں، فراڈ میں ایک پارٹی دوسری پارٹی پر کیس کرتی ہے، مگر یہاں پر کوئی حنیف کھڑا ہو جاتا، کیا یہ جرم قابلِ قبول ہے؟ کس کے ساتھ ہوا ہے یہ فراڈ؟ بانیٔ پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے ساتھ؟بانیٔ پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی شادی شدہ زندگی خوشی سے جی رہے ہیں۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حنیف کے استغاثہ میں صرف نام بدلا، باقی سب کچھ وہی ہوا، کیا یہ بدنیتی نہیں کہ پہلی شکایت واپس لینے کے بعد وہی شکایت دوبارہ دائر ہوئی، کیا اس بد نیتی پر بریت نہیں بنتی، کوئی جرم ہوا ہی نہیں، نہ فراڈ، نہ بے ایمانی ہوئی، سیکشن 496 کی غلط تشریح کی گئی۔
جرم تو تب بنتا ہے کہ ایک نے دوسرے کو دھوکا دیا ہو، اس کیس میں تو دونوں ملزم ہیں، کس نے کس سے فراڈ کیا؟ عدالت دیکھے کہ اس کیس میں حالات کیا ہیں، کبھی حنیف آ جاتا ہے، کبھی خاور مانیکا، وہ حنیف کون تھا، اب خاور مانیکا کے ساتھ فراڈ ہو گیا، اس جرم میں کوئی عدت کا دورانیہ مینشن نہیں، خاور مانیکا کی بشریٰ بی بی سے 1989ء میں شادی ہوئی، مجھے نکاح نامہ ہی نہیں ملا، یہ تو دستاویزات کا کیس ہے، آپ کو دن گننے میں لگا دیا لیکن مدعی نے اپنے دن تو بتائے ہی نہیں کہ کب کیا ہوا؟ یہ نہیں بتایا کہ کب بانیٔ پی ٹی آئی کو دیکھا؟ کب گھر سے نکالا؟ مجھے تاریخ تو بتائیں، فرح گوگی بھی گئیں،3 ملزم تو گئے، آدھا کیس تو ویسے ہی ختم ہو گیا، آپ نے سات آٹھ واقعات بتا دیے، ان کی ٹائم لائن تو دیں، سال تک نہیں بتایا، شکایت کنندہ کا مؤقف عدت کا دورانیہ پورا ہونے کا نہیں رجوع کے حق کا ہے، پوری فیملی میں خاور مانیکا کے علاوہ 5 بچے بھی ہیں، کوئی عدالت میں پیش نہیں ہوا، عون چوہدری تو خاور مانیکا کے بچے نہیں ۔
جج افضل مجوکا نے کہا کہ 3 بج کر 29 منٹ تک عدالتی اوقات میں ہی کیس سنوں گا۔بیرسٹر سلمان صفدر نے استدعا کی کہ دوسرےجج نے کیوں لیٹ تک کیس سنا اس نکتے پر بری کر دیں۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ سخت سردی تھی، اڈیالہ جیل میں رضوان عباسی لانگ شوز اور مفلر لے کر آئے، انہیں پتہ تھا کہ رات کی شفٹ کا کیس ہے، میں ایسے ہی چلا گیا، عدالت جہاں چاہے ہمیں شک کا فائدہ دے، بہت اسکوپ ہے ۔
جج افضل مجوکا نے کہا کہ ایک سوال رہ گیا کہ خاور مانیکا کے بشریٰ بی بی سے طلاق سے پہلے کب سے تعلقات خراب تھے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ عدالت 2 چیزیں دے سکتی ہے، ایک شک کا فائدہ، دوسرا بریت، تاخیر کا کوئی جواز پیش نہیں کیا گیا، کوئی وضاحت نہیں کی گئی، خاور مانیکا نے اپنے بیان میں کسی بھی واقعے کی ٹائم لائن نہیں بتائی، شکایت کنندہ کی جانب سے مقدمے کے اندراج میں تاخیر کرنا مقدمے کو کمزور کرتا ہے، 2 ہزار دن خاموشی اختیار نہیں کی جا سکتی، اس چیز کو واضح کروں گا، اتنے بڑے کیس میں کیا کوئی میڈیکل ایکسپرٹ بلایا گیا؟ کہتے ہیں کہ میرے تعلقات خراب ہوئے مگر ٹائم لائن نہیں بتائی، پورے کا پورا کیس طلاق اور نکاح نامے پر کھڑا ہے، طلاق نامے کی فوٹو کاپی پر سزا ہوتی ہے کیا طلاق نامے کے اوپر دن اور مہینے پر ٹیمپرنگ ہوئی ہے۔
جج افضل مجوکا نے کہا کہ اگر اس کیس میں کوئی فیصلہ دینا چاہیں تو دے دیں تاکہ پڑھ لوں۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے مختلف عدالتی فیصلے عدالت کو فراہم کر دیے اور کہا کہ میں کل 1 گھنٹے میں خاص حصے پر دلائل دے دوں گا۔عدالت نے کیس کی سماعت کل دن 11 بجے تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ ہائی کورٹ پہلے ہی سیشن کورٹ کو مرکزی اپیلوں پر ایک ماہ میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کرچکی ہے۔