علی جبران :
علی امین گنڈا پور کی دھمکی کے باوجود سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک ایک سو نوے ملین پائونڈ کیس میں عمران خان کے خلاف گواہی دے کر جا چکے ہیں۔ دونوں کے راستے تو پہلے ہی الگ ہوچکے تھے۔ گواہی کے بعد لگتا ہے کہ سارے سلسلے ٹوٹ چکے جو شاید اب کبھی نہ جڑیں۔
پرویز خٹک اور عمران خان کا تعلق برسوں پر محیط تھا۔ دونوں میں ایچی سن کالج کے زمانے سے شناسائی تھی۔ پرویز خٹک، عمران خان سے دو تین بیج سینئر تھے۔ بعد میں وہ عمران خان کی پارٹی کے اہم رہنما بنے اور اب ان کے خلاف اہم کیس میں گواہ ہیں۔ بدھ کے روز جب پرویز خٹک روسٹرم پر آکر گواہی قلمبند کرارہے تھے تو عمران خان ان کے قریب کھڑے طنزیہ انداز میں مسکراتے رہے۔ شاید عمران خان کے ذہن میں برسوں پر محیط فلم چل رہی ہوگی کہ ایچی سن کالج سے شروع ہونے والا سفر گیارہ سالہ پارٹی رفاقت کے بعد کہاں آکر ختم ہوا ہے۔ ماضی کے ہمراز و دمساز نے آنکھوں کے سامنے ان کے خلاف گواہی دی۔ اس میں عبرت کی بہت سی نشانیاں ہیں۔ انسان ساری عمر جو کرتا ہے زمانہ وہی اسے لوٹاتا رہتا ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک دیرینہ عہدیدار نے بتایا ’’دو ہزار گیارہ میں جب تحریک انصاف میں پرویز خٹک کو شامل کرنے کا فیصلہ ہوا تو اس پر ان کے آبائی شہر نوشہرہ سے ہی بڑا رد عمل آیا تھا۔ اس زمانے میں پی ٹی آئی کا مرکزی دفتر اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس فور میں ہوا کرتا تھا۔ پرویز خٹک کی شمولیت کے اعلان کیلئے اسی مرکزی دفتر میں پریس کانفرنس کا بندوبست کیا گیا تھا۔ تا ہم عین وقت پر ہنگامہ ہو گیا۔ اس وقت کا پی ٹی آئی نوشہرہ کا ایک اہم عہدے دار بہت سارے کارکنوں کو لے کر مرکزی دفتر پہنچ گیا اور اس نے پرویز خٹک کی پارٹی میں شمولیت پر زبردست احتجاج کیا۔ یہ احتجاج اتنا شدید تھا کہ پریس کانفرنس تلپٹ ہو گئی۔ کرسیاں الٹ دی گئیں۔
پی ٹی آئی نوشہرہ کے ذمہ داران کسی صورت پرویز خٹک کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھے۔ اس صورتحال میں مجبوراً پریس کانفرنس ملتوی کرنی پڑی۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے پرویز خٹک کو مشورہ دیا گیا کہ وہ یہاں سے فوری نکل جائیں۔ چنانچہ انہیں مرکزی دفتر کے عقبی راستے سے نکال کر بنی گالہ پہنچا دیا گیا۔ بڑی کاوشوں سے کارکنوں کا غصہ ٹھنڈا کیا گیا اور انہیں یہ باور کرایا گیا کہ پرویز خٹک کی پارٹی میں شمولیت سے پی ٹی آئی نوشہرہ سمیت خیبرپختون میں مضبوط ہوگی۔ جبکہ کسی پارٹی کارکن اور عہدے دار سے زیادتی نہیں ہوگی۔ بعد ازاں عمران خان نے پرویز خٹک کو اپنے ساتھ بٹھا کر پریس کانفرنس کی اور پی ٹی آئی میں ان کی شمولیت کا باقاعدہ اعلان کیا گیا‘‘۔
پرویز خٹک نے مختصر وقت میں ہی عمران خان کا اعتماد حاصل کر لیا اور ان کا شمار بانی پی ٹی آئی کے قریب ترین لوگوں میں ہونے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ جب دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں صوبہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کو پہلی دفعہ اقتدار ملا تو صوبے کی وزارت کا تاج پرویز خٹک کے سر پر رکھا گیا۔ بطور وزیراعلی خیبر پختونخوا اپنے پانچ سالہ دور میں پرویز خٹک نے نہ صرف پارٹی میں بلکہ صوبے میں بھی اپنی جڑیں بہت مضبوط کر لیں۔ یوں جہاں پارٹی میں ان کے بہت سارے مخالفین پیدا ہو گئے۔ وہیں عمران خان کو بھی ان کا یہ بڑھتا اثر و رسوخ پسند نہیں آیا۔ عمران خان یہ بھی محسوس کر رہے تھے کہ ان کے فیصلوں پر عموماً پارٹی کے بہت سے رہنما خاموش رہتے ہیں۔ اس کے برعکس پرویز خٹک کھل کر ان سے اختلاف رائے کرنے لگے تھے۔ یہ خودسری عمران خان کے مزاج کے خلاف تھی کہ وہ ’’یس مین‘‘ کے عادی ہیں۔ یوں آہستہ آہستہ پرویز خٹک بانی پی ٹی آئی کی گڈ بک سے باہر ہونے لگے۔
دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں ایک بار پھر پی ٹی آئی نے خیبر پختونخواہ میں میدان مار لیا۔ پرویز خٹک نے اس کامیابی کو اپنی کارکردگی سے جوڑا۔ وہ سمجھتے تھے کہ بطور وزیراعلی ان کی اعلیٰ کارکردگی کی بدولت ہی پی ٹی آئی ایک بار پھر صوبے میں قابل ذکر کامیابی حاصل کر پائی۔ لہذا دوبارہ وزیراعلیٰ بننا بھی انہی کا حق ہے۔ لیکن گھاگ عمران خان فیصلہ کر چکے تھے کہ اس بار انہیں وزارت اعلی نہیں دی جائے گی۔ وہ عاطف خان کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتے تھے۔ جو پرویز خٹک کے مخالف گروپ سے تعلق رکھتے تھے۔ عمران خان نے پرویز خٹک کو آسرا دیا کہ وہ انہیں صوبے سے نکال کر وفاق میں لے جانا چاہتے ہیں۔ وزارت اعلیٰ تو انہوں نے دیکھ ہی لی ہے۔ اب انہیں وزیر داخلہ بنایا جائے گا۔
سودا برا نہیں تھا۔ چنانچہ پرویز خٹک نے ہامی بھرلی۔ لیکن شرط رکھی کہ عاطف خان کی جگہ کسی دوسرے کو وزیر اعلیٰ بنایا جائے۔ ان کی شرط مان لی گئی۔ عمران خان ماضی جیسی غلطی دہرانا نہیں چاہتے تھے۔ لہذا ایسے بندے کی تلاش شروع کی گئی جو وزیر اعلیٰ بن کر پرویز خٹک جیسا خودسر نہ ہو جائے۔ قرعہ فال محمود خان کے نام نکلا۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ محمود خان، عمران خان کے دست راست مراد سعید کی دریافت تھے۔ مراد سعید نے ہی وزیر اعلیٰ کے طور پر محمود خان کا نام عمران خان کو پیش کیا تھا۔
اس وقت پارٹی میں محمود خان کا اتنا بڑا قد نہیں تھا۔ لیکن ابھی ایک رکاوٹ باقی تھی۔ اسد قیصر بھی وزارت اعلیٰ کے خواہشمند تھے۔ یہ رکاوٹ اس طرح دور کی گئی کہ انہیں بھی یہ کہہ کر وفاق کا راستہ دکھایا گیا کہ پارٹی کو اس کی ضرورت ہے۔ قصہ مختصر اسد قیصر کو قومی اسمبلی کی اسپیکر شپ کیلئے راضی کرلیا گیا۔ یوں محمود خان کیلئے راستہ صاف ہوگیا۔ عمران خان نے وعدے کے مطابق اسد قیصر کو تو اسپیکر بنادیا۔ لیکن جب کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ آیا تو پرویز خٹک سے ہاتھ کردیا۔ پرویز خٹک کو وزیر داخلہ بنانے کے بجائے بطور وزیر اعظم عمران خان نے یہ قلمدان بھی اپنے پاس رکھ لیا اور پرویز خٹک سے دو چار مہینے صبر کرنے کا کہا۔ لیکن یہ دو چار مہینے کبھی نہیں آئے۔
پرویز خٹک کو وزیر دفاع بنا دیا گیا۔ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان میں وزیر دفاع کے پاس کتنے اختیارات ہوتے ہیں۔ اصل مقصد انہیں کھڈے لائن لگانا تھا۔ تب سے ہی عمران خان اور پرویز خٹک کے تعلقات میں دراڑ پڑنا شروع ہو گئی تھی۔ جو بعد میں بڑھتی چلی گئی۔ پرویز خٹک نجی محفلوں میں برملا یہ کہتے پائے جاتے تھے کہ ’’خان نے ان سے دھوکا کیا‘‘۔