راولپنڈی: ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو ڈھیل دینے سے ملک میں انتشار پیدا ہوگا۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے نیوزکانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اس پریس کانفرنس کا مقصد بعض اہم امور پر افواج کا مؤقف واضح کرنا ہے، جیسا کہ علم میں ہے کہ حالیہ کچھ عرصے میں مسلح افواج کے خلاف منظم پروپیگنڈا، جھوٹ، غلط معلومات کے پھیلاؤ اور ان سے منسوب من گھڑت خبروں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اس لیے ان معاملات پر بات کرنا ضروری ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ عزم استحکام ایک ملٹری آپریشن نہیں اور ایسا بھی نہیں ہے جیسا اس کو پیش کیا جارہا ہے،دہشتگردی کیخلاف جنگ ہماری بقا کا مسئلہ ہے،عزم استحکام کا غلط طور پر ضرب عضب آپریشن سے موازنہ کیا جارہا ہے،عزم استحکام دہشتگردی کیخلاف وسیع اور کثیرالجہتی مہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ عزم استحکام آپریشن کاؤنٹر ٹیررازم کے حوالے سے ہمہ گیر اور منظم مہم ہے، 22جون کو عزم استحکام آپریشن پر ایک اجلاس ہوا، اجلاس میں متعلقہ وزرا، وزرائے اعلیٰ اور چیف سیکرٹریز موجود تھے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 22جون کو اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری ہوتا ہے، ایپکس کمیٹی نے 2021کے نظر ثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان میں پیشرفت کاجائزہ لیا، ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں سول اور ملٹری افسران بھی شریک تھے، اعلامیہ کے مطابق ایپکس کمیٹی میں ماضی میں کیے گئے آپریشنز کا موازنہ کیا گیا، اعلامیہ میں کہا گیا کہ قومی اتفاق رائے سے کاؤنٹر ٹیررازم مہم شروع کی جائے، ایک بیانیہ بنایا گیا کہ ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں، یہ قومی بقا کا ایشو ہے جس کو مذاق بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف مہم کو عزم استحکام کے نام سے منظم کیا جائے گا، اعلامیہ میں لکھا گیا کہ ایک قومی دھارے کے تحت اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا، یہ قومی وحدت کا معاملہ ہے اس کو بھی سیاست کی نذر کیا جاتا ہے، کیوں ایک مافیا، سیاسی مافیا اور غیرقانونی مافیا کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا اس کو ہم نے ہونے نہیں دینا، یہ سیاسی مافیا چاہتا ہے کہ عزم استحکام کو متنازع بنایا جائے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ پاکستان میں کوئی نوگو ایریا نہیں ، عزم استحکام سے متعلق 24 جون کو وزیرِ اعظم آفس سے ایک بیان جاری کیا گیا، عزم استحکام فوجی آپریشن نہیں، اس کو متنازع کیوں بنایا جا رہا ہے؟ ایک مضبوط لابی ہے جو چاہتی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے اغراض ومقاصد پورے نہ ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس آپریشن کا ایک مقصد دہشتگردوں اور کرمنل مافیا کے رابطے کو بریک کرنا ہے ، کاؤنٹر ٹیررازم کی مد میں اس سال سکیورٹی فورسز نے مجموعی طور پر اب تک 22 ہزار 409 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے، اس دوران 398 دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا گیا، دہشتگردی کے ناسور سے نمٹنے کے لیے روزانہ 112 سے زائد آپریشن افواج پاکستان، پولیس، انٹیلیجنس ایجنسی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انجام دے رہے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس کے دوران انتہائی مطلوب 31 دہشتگردوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں، رواں سال 137 افسر اور جوانوں نے ان آپریشن میں جام شہادت نوش کیا، پوری قوم ان بہادروں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے جنہوں نے قیمتی جانیں ملک کے امن و سلامتی پر قربان کی ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہاکہ ہم ہر گھنٹے میں 4سے 5انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کررہے ہیں، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سب سے زیادہ دہشتگردی ہے، خیبرپختونخوا میں سی ٹی ڈی کے 537فیلڈ آپریٹر ہیں ، 2014سے سنتے آرہے ہیں کہ مدارس کو ریگولرائزڈ کرنا ہے، 50فیصد سے زیادہ مدارس کا پتہ ہی نہیں کہ کون چلا رہا ہے، 16 ہزار مدارس رجسٹرڈ ہیں، اب بھی 50 فیصد مدارس رجسٹرڈ نہیں، کیا یہ فوج نے کرنا ہے؟ ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے اینٹی ٹیرریسٹ کورٹ بنائے گئے، نیکٹا کے مطابق کے پی میں اے ٹی سی کورٹس 13 اور بلوچستان میں 9 ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں سے کروڑوں اوراربوں کا کاروبار ہورہا ہے اور یہ گاڑیاں دہشتگرد بھی آپریٹ کرتے ہیں، افغانی شہری دیگر ممالک میں ویزے پر جاتے ہیں، ہمارے ملک کے بارڈر کو کیوں سافٹ بارڈر رکھا جاتا ہے۔