امت رپورٹ
پچھلے ایک ماہ سے ملک میں متوقع ایمرجنسی یا ایمرجنسی پلس کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ اس نوعیت کے تجزیوں میں اب زیادہ شدت آچکی ہے۔ کیا واقعی ایسا کچھ ہونے جارہا ہے؟
اس بارے میں ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس طرح کا متوقع اقدام مشروط ہے۔ دراصل پالیسی سازوں کا اصل فوکس اس وقت پانچ سالہ معاشی پروگرام پر ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس پلان سے ملک کی بقا کا تعلق جڑا ہے۔ لہٰذا اسے ہر صورت اور ہر قیمت پر پایہ تکمیل تک پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت پلان کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو کچل دیا جائے گا۔ اگر ضرورت پڑی تو اس کے لیے ایمرجنسی یا ایمرجنسی پلس لگانے سے بھی دریغ نہیں کیا جائے گا۔ حتیٰ کہ آخری آپشن کے طور پر مارشل لا بھی خارج از امکان نہیں۔
ذرائع کے مطابق پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ پانچ سالہ معاشی پلان کو لے کر چلنے والی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے پانچ نکات پر پیش رفت حوصلہ افزا ہے اور اس کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان پانچ نکات میں مائننگ و کارپوریٹ فارمنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، زراعت و ڈیری فارمنگ، انرجی اور دفاعی پیداوار شامل ہیں، ان تمام نکات پر کام شروع ہو چکا ہے۔ پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ پچھلے برس اپنے قیام سے لے کر اب تک ایس آئی ایف سی کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کی طرف بڑھ رہی ہے۔
ایس آئی ایف سی کا بنیادی مقصد بڑے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنا ہے اور اس سرمایہ کاری کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کر کے سرمایہ کاروں کو سہولیات فراہم کرنا ہے۔ ایس آئی ایف سی نے بیرونی سرمایہ کاری میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان اور سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے مابین سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے۔
حال ہی میں آذربائیجان کے صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر دونوں ممالک کے درمیان ٹیلی ویژن آپریشن سمیت مختلف شعبوں میں سترہ سے زائد اہم مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے۔ پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان ایئرلائن سروس کا آغاز بھی کارڈ پر ہے۔ آذربائیجان نے تجارتی سرگرمیوں کو آسان بنانے کے لیے بینکنگ چینل کی سفارش بھی کی ہے۔ ان معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مناسب طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ اور ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو ان مفاہت کی یادداشتوں سے متعلق امور کو دیکھے گی۔ پاکستان اور آذربائیجان کے مابین تجارت کا ہدف دو ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔
گزشتہ روز برطانوی کمپنی ڈیلیوری ایسوسی ایٹس نے بھی پاکستان کو معاشی ترقی میں تعاون کی پیشکش کی ہے۔ کمپنی کے بانی اور چیئرمین سر مائیکل باربر نے اسلام آباد میں وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب سے ملاقات کی اور ایس آئی ایف سی کے تحت تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا۔ واضح رہے کہ ایس آئی ایف سی کی سربراہی وزیراعظم کے پاس ہے اور اس میں تمام وفاقی و صوبائی وزرا، سیکریٹریز کے علاوہ افواج پاکستان کی اعلیٰ سطح کی نمائندگی بھی ہے۔ اپنے ایک سالہ دور میں ایس آئی ایف سی نے آئی ٹی کے شعبے میں سرمایہ کاروں کو اپنے منافعے میں سے پچاس فیصد تک سرمایہ اپنے ممالک میں لے جانے کی سہولت دی ہے۔
اسی طرح سرمایہ کاری محتسب کے دفتر کے قیام کی صورت میں سرمایہ کاروں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا گیا ہے جہاں وہ اپنے مسائل کو احسن طریقے سے حل کر سکیں گے۔ اسٹیٹ بینک پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق آئی ٹی کی برآمدات میں مسلسل نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب زراعت کے حوالے سے کسانوں کو اعلیٰ معیاری بیج فراہم کرنے کے لیے نیشنل سیڈز ڈیولپمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی گئی ہے جو فصلوں کی پیداوار کے اضافے کو یقینی بنائے گی۔ سی فوڈز کو ایکسپورٹ کے قابل بنانے کے لیے ایک جامع آبی زراعت کی پالیسی بنائی گئی ہے جس سے مچھلی اور جھینگوں کی بین الاقوامی معیار کے مطابق پروسیسنگ کی جائے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایس آئی ایف سی کے تحت ملک میں سرمایہ کاری لانے کے ساتھ ساتھ سی پیک کے فیز ٹو کو مکمل کرنا بھی پانچ سالہ معاشی پلان کا اہم ہدف ہے۔ چاہ بہار سمیت چاہے کتنے ہی پراجیکٹ آجائیں لیکن سی پیک کی اہمیت برقرار رہے گی اور اس حوالے سے چین کی کمٹمنٹ میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی ہے۔ سی پیک فیز ون کے تحت آٹھ سو چالیس کلو میٹر طویل موٹرویز پایہ تکمیل تک پہنچ چکی ہیں۔ آٹھ سو بیس کلو میٹر آپٹیکل فائبر بھی مکمل ہو چکی ہے۔ اسی طرح سکی کناری ڈیم اور داسو ڈیم کے منصوبے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔ جبکہ ایم ایل ون معاہدے کے تحت خنجراب سے گوادر تک ریلوے روٹ، کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ، اسپیشل اکنامک زون اور صنعتوں کی بحالی سمیت چند دیگر پروجیکٹ فیز ٹو کا حصہ ہیں۔ چھیالیس ارب ڈالر میں سے اب تک ستائیس ارب ڈالر سے زائد کی رقم سی پیک کے منصوبوں پر خرچ ہو چکی ہے۔ تقریباً سولہ ارب ڈالر فیز ٹو کے منصوبوں کے لیے درکار ہیں۔
یاد رہے کہ سی پیک پروجیکٹ دو ہزار تیرہ میں نون لیگ کے دور حکومت میں شروع کیا گیا تھا۔ اس پر تیزی سے کام ہوا۔ تاہم دو ہزار اٹھارہ میں پی ٹی آئی حکومت آنے کے بعد سی پیک پر کام کی رفتار انتہائی سست ہو گئی۔ اس کے نتیجے میں سکی کناری ڈیم اور داسو ڈیم سمیت دیگر اہم منصوبے مکمل نہیں ہو سکے۔ یہ تاثر عام ہے کہ ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی حکومت نے سی پیک پر کام نہیں ہونے دیا اور ان کے پونے چار سالہ اقتدار میں سی پیک پروجیکٹ محض رینگ رہا تھا۔ اب جبکہ فیز ٹو پر چین کے ساتھ پاکستان کی بات چیت چل رہی ہے تو پی ٹی آئی اگرچہ اقتدار سے باہر ہے لیکن مسلسل سیاسی عدم استحکام پیدا کر کے وہ اپنا پرانا رول ادا کرنے میں مصروف ہے۔ حتیٰ کہ ایس آئی ایف سی کی ساکھ کو متاثر کرنے کے لیے بھی پی ٹی آئی نے کمر کسی ہوئی ہے جسے موجودہ معاشی بحران میں پاکستان کے لیے روشنی کی کرن قرار دیا جارہا ہے۔
ایس آئی ایف سی کے خلاف پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم مسلسل گمراہ کن پروپیگنڈا کررہی ہے۔ اس بات سے بے نیاز ہو کر کہ اس کونسل کی کامیابی سے کسی انفرادی شخصیت یا حکومت کو نہیں بلکہ ریاست کو فائدہ پہنچے گا۔ ذرائع کے مطابق پالیسی ساز محسوس کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے اس ایجنڈے کو دانستہ یا نادانستہ طور پر بعض آئینی ادارے بھی فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ اس تناظر میں ’’ایسا ہے تو پھر ایسا ہی سہی‘‘ کے اصول کو اپناتے ہوئے ہر صورت پانچ سالہ معاشی منصوبے کو مکمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، چاہے اس کے لیے کسی حد تک بھی جانا پڑے۔