نمائندہ امت :
ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی سندھ کی کرپشن مافیا نے سیلاب بچائو کے نام پر اربوں روپے ہڑپنے کی تیاری شروع کردی ہے۔ جس میں سرفہرست محکمہ آبپاشی شامل ہے۔ ابھی سے گدو بیراج سے لے کر ٹھٹھہ تک دریائے سندھ کے بچائو بند کے تقریباً 104 مقامات کو مخدوش قرار دیا گیا ہے۔ دریائے سندھ میں سیلاب کے ساتھ شدید بارشوں کی پیشن گوئی بھی کی گئی ہے۔ اس مرتبہ بارشوں کا زیادہ زور شمالی سندھ کے بجائے جنوبی سندھ میں ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ جس کے باعث اربن فلڈ کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔
اس حوالے سے کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پاک بحریہ ، محکمہ آبپاشی، محکمہ بلدیات ، ضلعی انتظامیہ، متعلقہ محکموں کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنے کے احکامات بھی جاری کئے گئے ہیں۔ 2022ء کے سیلاب اور شدید بارشوں سے متاثر ہونے والے تقریباً سوا کروڑ افراد کی بحالی کا کام بیس فیصد بھی نہیں ہوسکا ہے۔ اس صورتحال میں شدید بارشوں کے باعث مزید لاکھوں افراد کے بے گھر ہونے کا خدشہ بھی بڑھ رہا ہے۔
سندھ میں مون سون کی بارشوں کا سلسلہ یکم جولائی سے شروع ہوکر ستمبر کے وسط تک چلتا ہے۔ تاہم بارشوں کا زیادہ زور اکثر اگست کے مہینے میں ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت سندھ کے اعلیٰ سطحی ذرائع نے امت کو بتایا کہ محکمہ موسمیات کی رپورٹس کے مطابق اس مرتبہ بھی صوبے بھر میں شدید بارشوں کا امکان ہے۔ تاہم سب سے زیادہ بارشوں کا امکان جنوبی سندھ میں ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ ضلع ٹھٹھہ ، سجاول ، بدین، میرپور خاص ، ٹنڈومحمد خان، ٹنڈوالہ یار، حیدرآباد، جامشورو ، عمر کوٹ، مٹھی اور ضلع مٹیاری شامل ہیں۔ مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں 8 جولائی کو وزیراعلیٰ سندھ کے زیر صدارت منعقدہ اعلیٰ سطح اجلاس میں سیلاب اور بارشوں کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے انتظامات کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں صوبائی وزیر آب پاشی جام خان شورو، وزیر بلدیات سعید غنی، وزیر بلدیات محمد بخش مہر، وزیر بحالی و ریونیو مخدوم محبوب، چیف سیکریٹری سندھ آصف حیدر شاہ، ڈی جی پی ڈی ایم اے سلمان شاہ، میئر سکھر نعمان شیخ، متعلقہ محکموں کے سیکریٹریز نے بھی شرکت کی۔ جبکہ تمام ڈویژنل کمشنرز نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شامل تھے۔ اجلاس کو وزیر آبپاشی اور سیکریٹری آبپاشی نے بریفنگ دیتے ہوئے آگاہ کیا کہ اس وقت دریائے سندھ کے بچائو بندوں کے تقریباً 104 مقامات ایسے ہیں جہاں پر بندوں کی حالت مخدوش ہے۔ جن میں گڈو بیراج سے لے کر سکھر بیراج تک ایسے تقریباً دس مقامات ہیں۔ جبکہ سکھر بیراج کے کمانڈ میں آنے والے مطلوبہ بچائو بندوں میں سے بائیں کنارے کے 36 مقامات اور دائیں کنارے کے 22 مقامات اور کوٹری بیراج کے بچائو بندوں کے 28 مقامات بھی ان میں شامل ہیں۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ مذکورہ مقامات پر بچائو بندوں کو مضبوط بنانے کے لئے کام جاری ہے۔ اس سلسلے میں ان مقامات پر مشینری پہنچادی گئی ہے۔ اور اسٹون پچنگ کا کام بھی چل رہا ہے۔ اجلاس میں صوبائی وزیر بحالی نے موقف اختیار کیا کہ بروقت انتظامات کرنے کے لئے پی ڈی ایم اے کے ساتھ ضلعی انتظامیہ کو امدادی سرگرمیوں کے لئے اور بروقت دیگر اقدامات کرنے کے لئے فنڈز جاری کئے جائیں۔ جس پر وزیراعلیٰ سندھ نے چیف سیکریٹری سندھ کو ہدایت کی کہ اس سلسلے میں سیکریٹری محکمہ خزانہ جائزہ لے کر فنڈز کا اجرا کریں۔ اجلاس میں 2010 اور 2022 میں ضلع جامشورو اور دادو میں بڑی تباہی کا سبب بننے والی منچھر جھیل کی صورتحال کا بھی جائزہ لیا گیا۔
واضح رہے کہ ان برسوں میں بلوچستان اور کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں شدید بارشوں کے باعث منچھر جھیل میں پانی کا دبائو بڑھنے کے باعث بند ٹوٹ گئے تھے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے منچھر جھیل کے ساتھ سانگھڑ میں واقع چوٹیارو جھیل کے پشتوں کو بھی مضبوط کرنے کے احکامات جاری کئے۔
مذکورہ اجلاس میں شدید بارشوں کے باعث اربن فلڈ کی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا۔ اس کے لئے سب سے زیادہ توجہ بروقت نکاسی آب کو یقینی بنانے پر دیا گیا۔ جس کے لئے بھی ضلعی انتظامیہ کو دیگر مشینری فراہم کرنے کے ساتھ اسٹینڈ بائی جنریٹرز کو بھی یقینی بنانے کے احکاما ت جاری کئے گئے۔
سیلاب کی صورتحال سے بچائو کے نام پر ضلعی انتظامیہ ، محکمہ بلدیات ، محکمہ بحالی سے لے کر دیگر متعلقہ محکموں میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوتی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں سب سے زیادہ کرپشن محکمہ آبپاشی میں نظر آتی ہے۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ دیگر محکموں کے مقابلے میں محکمہ آبپاشی میں کرپشن کرنے والے کبھی بھی پکڑ میں نہیں آتے کیونکہ سیلاب کی صورتحال میں بچائو بندوں کو مضبوط بنانے کے لئے مٹی اور پتھر وغیرہ ڈالنے کے نام پر بڑھا چڑھاکر جو اخراجات ظاہر کئے جاتے ہیں اس کے ثبوت اس لئے بھی سامنے نہیں آتے کہ یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ پانی کے شدید بہائو کے ساتھ ہی بہہ گئے۔
ہر سال بچائو بندوں پر کروڑوں اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد بھی بند مضبوط نہیں ہوتے اور بعض اوقات ان میں شگاف بھی پڑجاتے ہیں۔ جہاں تک محکمہ آبپاشی کی بات ہے تو اس وقت اس وقت مذکورہ محکمہ کا قلمدان جام خان شورو کے پاس ہے۔ لیکن 2008 سے لے کر جب سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی ہے عملی طور پر مذکورہ محکمے کا کنٹرول پیپلز پارٹی کی قیادت کے قریب رہنے والے علی حسن زرداری کے ہاتھ میں رہا ہے۔ اس وقت بھی علی حسن زرداری محکمہ جیل خانہ جات اور محکمہ ورکس اینڈ سروسز کے وزیر ہیں۔ لیکن عملی طور پر محکمہ آبپاشی کا ’’سسٹم ‘‘ ان ہی کیے کنٹرول میں ہے۔ مذکورہ محکمہ میں کس ٹھیکیدار کو کونسا ٹھیکہ ملنا ہے، اس کا فیصلہ بھی وہی کرتے ہیں۔ اور اس حوالے سے ایک پوری چین بنی ہوئی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اس حوالے سے دوسری بڑی کرپشن بحالی کے نام پر ہوتی ہے۔ جس میں پانی کے اخراج ، متاثرین کو کھانا فراہم کرنے سے لے کر متاثرین کو خیموں، مچھر دانیوں، کچن سیٹ ، ٹیبل ٹوائلٹ، راشن بگیز، پانی کے ٹینک و دیگر سامان کی فراہمی شامل ہے۔ اس مد میں اخراجات اور مذکورہ سامان کی تقسیم برھا چڑھاکر ظاہر کی جاتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 8 جولائی کے ہونے والے اجلاس کو بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ڈھائی لاکھ سے زائد افراد کے لئے خیمے، چٹائیاں، واٹر کولر اور ٹیبل ٹوائلٹ ، پانی کے ٹینک، مچھردانیاں، کچن سیٹ اور راشن بیگز موجود ہیں۔ اور ضرورت پڑنے پر مزید اشیا خریدکے بروقت ضلعی انتظامیہ کو پہنچائی جائیں گی۔