عمران خان :
پاکستانی زائرین کے قافلے عراق لے کر جانے والے بیشتر کاروان (ٹریول ایجنٹ) رجسٹرڈ نہیں ہوتے۔ یہ سلسلہ پچھلی ایک دھائی سے جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی حکام کے پاس ان زائرین کا مکمل ریکارڈ نہیں ہوتا کہ کتنے پاکستانی عراق گئے اور ان میں سے کتنے واپس آئے؟
واضح رہے کہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور و بین الامذاہب ہم آہنگی، چوہدری سالک حسین نے انکشاف کیا کہ 50 ہزار سے زائد پاکستانی زائرین عراق میں جاکر غائب ہوئے۔ تاہم اب حکومت نے اس سلسلے کو سختی سے روکنے کی حکومت عملی طے کرنی شروع کردی ہے۔ عراق میں موجود پاکستانی سفارت خانے سے اس حوالے سے ڈیٹا وزارت خارجہ اور داخلہ کے توسط سے لے کر اس پر کام شروع کردیا گیا ہے۔
اس سارے معاملے میں ’’امت ‘‘ نے جو تحقیق کی، اس سے معلوم ہوا کہ عراق میں غائب ہوجانے والے زائرین کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ اور یہ کہ زائرین کی آڑ میں جانے والے افراد کی زیادہ تر تعداد سلپ ہوجانے کے بعد مقدس مقامات اور زیارتوں کے اطراف کے علاقوں میں بھیک مانگتی ہے۔
بعض قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رپورٹس کے مطابق کچھ تعداد ایسے افراد پر بھی مشتمل رہی تھی جو زائرین کی آڑ میں ’’زینبیون‘‘ اور ’’فاطمیون‘‘ نامی تنظیموں میں شامل ہوجاتی تھی۔ انہیں وہاں سے شام، یمن اور لبنان لڑنے کے لئے بھیجا جاتا تھا۔ تاہم اب یہ سلسلہ کم ہوچکا ہے۔ بھیک مانگنے والے نیٹ ورک کی وجہ سے پاکستان کی کتنی بدنامی ہوچکی ہے؟ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عراق میں دنیا کے تمام ہی ممالک سے زائرین مقدس مقامات کی زیارت کے لئے آتے ہیں۔ تاہم پاکستانی زائرین کے لئے عراقی حکام نے پابندیاں سخت کردی ہیں۔ ان کے پاسپورٹ سرحد عبور کرتے ہی ان سے لئے جانے کے واقعات بھی ہونے لگے۔ تاکہ ان کی واپسی ممکن بنائی جاسکے۔ یہ سلوک دیگر ممالک کے زائرین کے ساتھ نہیں کیا جاتا۔
دستیاب اطلاعات کے مطابق حالیہ عرصہ میں عراقی حکام کی جانب سے زیارت کے نام پر آنے والے پاکستانی شہریوں کے عراق میں سلپ ہونے معاملات پر متعدد بار رابطہ کیا گیا ہے۔ ان رابطوں میں ایسے زائرین کو روکنے کے لئے کہا گیا ہے۔ جس کے بعد عراق میں موجود پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے وزارت داخلہ کو بھی کئی مراسلے ارسال کئے گئے ہیں۔ اس ضمن میں ہونے والی متعدد میٹنگز میں اہم فیصلے کر لئے گئے ہیں۔ جس کے تحت زائرین کو لے کر جانے والے تمام قافلہ سالاروں ( غیر رجسٹرڈ ٹریول ایجنٹوں) کو متعلقہ اداروں میں مکمل کوائف اور ضمانت کے ساتھ رجسٹرڈ کرکے انہیں امیگریشن اور ملکی قوانین کا مکمل پابند بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی طے کیا گیا ہے کہ جو زائرین بسوں کے ذریعے روانہ ہوتے ہیں وہ بذریعہ بس ہی واپس آئیںگے۔ جبکہ بذریعہ طیارہ روانہ ہونے والوں کی واپسی بھی فضائی راستے سے ہوگی۔ جس ٹریول ایجنٹ کی کمپنی کے قافلے میں شامل زائرین غائب ہوںگے ان کے خلاف ایف آئی اے کے ذریعے کارروائی کی جائے گی اور ان کے لائسنس منسوخ کردئے جائیںگے۔
سرکاری اداروں کے ذرائع کے بقول زائرین کے قافلے لے کر جانے والے زیادہ تر کارروان یعنی ٹریول ایجنٹ کمپنیوں کے رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت سندھ ،پنجاب ،خیبر پختونخواہ ،بلوچستان ،گلگت بلتستان میں شہریوں کو عراق بھجوانے والے 150سے زائد انسانی اسمگلروں کے گروپ سرگرم رہے ہیں۔ یہ گروپ بغیر حکومتی لائسنس کے آزادانہ طور پر شہریوں کو بیرون ملک بھجوانے کا کام کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق سندھ بھر میں ایسے 35 سے زائد گروپ سرگر م ہیں۔ اسی طرح سے بلوچستان، خیبر پختوانخواہ اور گلگت بلتستان میں 50 سے زائد غیر قانونی گروپ کام کر رہے ہیں۔ جبکہ سب سے زیادہ 70سے زائد گروپ صرف پنجاب میں متحرک ہیں۔
ذرائع کے بقول ابتدائی طور پر عراق میں امریکہ جنگ کے اختتام پر حکومت سے لائسنس یافتہ ٹریول کمپنیوں نے زائرین کی بڑی تعداد کو عراق اور ایران بھجوانے کا کا م شروع کیا تھا۔ ان گروپوں میں جانے والے افراد کے دیگر کوائف کے ساتھ امیگریشن کلیئرنس کے دوران بھجوانے والی کمپنیوں کے جی ایل لائسنس نمبر کی تصدیق کی جاتی تھی۔ تاہم وقت کے ساتھ اس کو نظر انداز کرنا شروع کردیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ خلیجی ممالک،مشرق بعید ،یورپ و امریکہ میں پاکستانی شہریوں کو ویزوں پر بھجوانے والی کئی دیگر غیر قانونی کمپنیوں اور ایجنٹوں کی طرح پاکستان سے عراق کے روٹ میں بھی انسانی اسمگلر سرگرم ہونا شروع ہوگئے۔
پاکستان سے سالانہ ہزاروں زائرین کی بڑی تعداد ہر مہینے عراق و ایران جانے لگے تو اس روٹ پر انسانی اسمگلروں کے رابطے مضبوط ہونا شرو ع ہوگئے۔ مذہبی تہواروں کے دوران اور عام دنوں میں بھی رش زیادہ ہونے کی وجہ سے بھکاریوں کی بڑی تعداد کو بھی عراق پہنچایا جانے لگا۔ اس کے نتیجے میں اس وقت مقدس مقامات کے اطراف میں ایسے ہزاروں گداگروں کا نیٹ ورک قائم کردیا گیا ہے جن کے ذریعے لاکھوں ڈالر کی آمدنی حاصل کی جا تی رہی ہے۔
ٹورازم ڈپارٹمنٹ سے جڑے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نیٹ ورک کے پنپنے میں ایف آئی اے امیگریشن کے تافتان بارڈراور مختلف ایئرپورٹس پر تعینات کرپٹ اہلکاروں اور افسران نے اہم کردار ادا کیا۔ جنہیں امیگریشن کلیئرنس کے لئے گروپ لے جانے والے انسانی اسمگلروں کے ایجنٹ پہلے سے ہی رابطے میں لے کر سیٹنگ بناتے رہے۔ انہیں حصہ دے کر اپنے گروپ کے تمام درجنوں افراد کی کلیئرنس کروالی جاتی ہے۔
چونکہ گزشتہ برسوں میں زائرین کے گروپ کی صورت میں جانے والے خواتین اور مردوں کے ویزے ایک ساتھ جاری کردئے جاتے رہے۔ اس کی وجہ سے مختلف خاندانوں کے افراد ایک ہی گروپ میں امیگریشن کلیئر کرواکر پاکستانی ایئرپورٹوں سے عراق پہنچ جاتے تھے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے حالیہ عرصہ میں عراقی حکومت کی جانب سے گروپ کے بجائے صرف ایک خاندان کی بنیاد پر ویزے جاری کرنے کی پالیسی اپنا لی گئی ہے۔ جس میں ایک خاندان کے مردو خواتین اور بچوں کو ایک فیملی ویزا مشترکہ جاری کردیا جاتا ہے ۔
اس صورتحال کے بعد انسانی اسمگلروں نے ایجوکیشن ویزوں کی آڑ میں نوجوانوں کو عراق منتقل کرنا شروع کردیا۔ جس کے لئے عراق میں موجود تعلیمی اداروں کے داخلہ لیٹرز استعمال کئے جانے لگے تاہم اکثر واقعات میں ان نوجوانوں کو عراق پہنچا کر لاکھوں روپے اضافی لے کر سلپ کروالیا جاتا ہے۔ جبکہ ایسے نوجوانوں کو بھجوانے والے زیادہ تر بغیر لائسنس کے کام کر رہے ہیں۔ اس لئے پاکستان میں ان کے خلاف کارروائی مشکل ہوجاتی ہے۔ اگر یہی واردات کوئی لائسنس یافتہ کمپنی کرے تو پاکستانی ادارے باآسانی اس کے ذریعے بھجوائے جانے والے افراد کے وطن واپس نہ آنے پر اس کو کمپنی کے دفتر پر کارروائی کرسکتے ہیں۔