مقبوضہ جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 سے نئی دہلی کی براہِ راست حکمرانی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار نے نئی دہلی میں میڈیا کوبتایا کہ خاصے طویل وقفے کے بعد ہم جموں و کشمیر میں انتخابات کرانے والے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر میں مجموعی طور پر 87 لاکھ افراد ووٹ دینے کے اہل ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیرکے دور و نزدیک کے تمام علاقوں سے جمع کرادہ ووٹوں کی گنتی 4 اکتوبر کو ہوگی اور اُسی دن انتخابی نتائج کا اعلان بھی کیا جائے گا۔ بھارتی حکومت ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے کہ عوام کو حقِ رائے دہی کے استعمال کا موقع دیا جارہا ہے تاکہ وہ اپنے نمائندوں کو اپنی مرضی سے منتخب کرسکیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ صرف تعلیم اور ثقافت کے معاملات میں 90 نشستوں کی اسمبلی کو معمولی سے اختیارات ملیں گے جبکہ اہم ترین امور میں تمام فیصلے نئی دہلی کے ہاتھ میں رہیں گے۔ اس کے نتیجے میں خطے کی سیاسی و معاشی کیفیت وہی رہے گی جو ہے۔
بھارتی پارلیمنٹ میں مقبوضہ کشمیر کی پانچ نشستوں کے لیے پولنگ جون میں ہوئی تھی۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں آج بھی کم و بیش پانچ لاکھ فوجی تعینات ہیں۔ 35 سالہ تحریکِ آزادی کے دوران ہزاروں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ تب ٹرن آؤٹ 58.6 فیصد رہا تھا۔ 2019 کی پولنگ میں ٹرن آؤٹ 28 فیصد تھا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کی اسمبلی کے لیے آخری بار پولنگ 2014 میں ہوئی تھی۔ تب بھارتیہ جنتا پارٹی نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی۔ 2018 میں جب بی جے پی حکومت سے الگ ہوئی تو حکومت گرگئی اور اسمبلی تحلیل کردی گئی تھی۔
2019 میں مودی سرکار نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی نیم خود مختارانہ حیثیت ختم کرکے اِسے مرکز کے زیرِانتظام یونین ٹیریٹری میں تبدیل کردیا تھا۔ اس تبدیلی نے مقامی انتخابات کی راہ مسدود کردی تھی۔ تب سے اب تک یہ خطہ نئی دہلی کے متعین کیے ہوئے گورنر کے تحت کام کرتا رہا ہے۔