الیکشن ٹربیونلز کے حوالے سے فافن نے رپورٹ جاری کر دی۔
فافن رپورٹ کے مطابق 23 میں سے 11 ٹربیونلز نے 377 انتخابی پٹیشنوں میں سے 25 کو نمٹا دیا، نمٹا ئی گئیں درخواستیں الیکشن ٹریبونل میں دائر 377 درخواستوں میں سے7 فیصد کی نمائندگی کرتی ہیں، صوبہ پنجاب میں 6 ٹربیونلز اب بھی غیر فعال ہیں، سست رفتاری کے نتیجے میں متعدد درخواستیں دائر ہونے کی تاریخ سے 180 دن کی قانونی آخری تاریخ سے باہر جا سکتی ہیں۔
فافن رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ قانونی طور پرالیکشن کمیشن آف پاکستان واپس آنے والے امیدواروں کے نام سرکاری گزٹ میں شائع کرنے کا پابند ہے، کوئی بھی ہارنے والا امیدوار واپس آنے والے امیدوار کے گزٹ نوٹیفکیشن کے 45 دنوں کے اندر پٹیشن دائر کر سکتا ہے، ہر درخواست کا فیصلہ اس کے دائر ہونے کے 180 دنوں کے اندر کیا جائے گا، الیکشنز ایکٹ 2017 میں ترامیم سے پارلیمنٹ نے انتخابی درخواستوں کے نمٹانے کی مدت کو 120 دن سے بڑھا کر 180 دن کیا۔
فافن رپورٹ کے مطابق ترامیم میں اعلیٰ عدالتوں کے جاری کردہ حکم امتناعی کی زیادہ سے زیادہ مدت کو 6 ماہ تک محدود کرکے درخواستوں کے نمٹانے میں تیزی لانے کے اقدامات بھی متعارف کرائے گئے ہیں، الیکشن کمیشن اور لاہور ہائی کورٹ کے درمیان طویل قانونی تشریحی، اختلافات کی وجہ سے، خاص طور پر پنجاب میں ٹربیونلز کی جاری کارروائیاں قانون کی روح کی عکاسی نہیں کرتی ہیں، پنجاب میں اب تک نوٹیفائی کیے گئے 8 ٹربیونلز کے پاس مجموعی طور پر 157 انتخابی درخواستیں ہیں۔
فافن رپورٹ میں بتایا گیا کہ چاروں صوبوں اور اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کے 23 الیکشن ٹریبونلز میں کم از کم 377 درخواستیں دائر کی گئی ہیں، فافن نے ہائی کورٹس کی ویب سائٹس پر دستیاب درخواستوں اور کاز لسٹوں کی کاپیوں کے ذریعے 333 درخواستوں کے لیے درخواست گزاروں کی نشاندہی کی ہے، صرف 226 درخواستوں کی کاپیاں حاصل کی گئی ہیں۔
فافن رپورٹ کے مطابق 44 درخواستوں کو کاز لسٹ کے ذریعے ٹریک نہیں کیا جا سکا، ای سی پی نے ابھی تک ٹربیونلز کے سامنے دائر درخواستوں کی صحیح تعداد اور ذیلی تفصیلات بھی ظاہر نہیں کیں، فافن نے جنرل الیکشن 2013 کے بعد نتائج کے تنازعات کو حل کرنے کے عمل کا بھی مشاہدہ کیا، الیکشن کمیشن نے 385 درخواستوں پر فیصلہ کرنے کے لیے 14 ٹربیونلز قائم کیے، جنرل الیکشن 2018 کے بعد الیکشن کمیشن نے 300 درخواستوں پر فیصلہ کرنے کے لیے 20 ٹربیونلز قائم کیے تھے۔